|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2014

پنجاب صوبے میں سیاسی طورپر ایک زلزلہ آیا ہوا ہے جس نے خادم اعلیٰ کو حد سے زیادہ پریشان کیا ہوا ہے۔ اس پریشانی کے عالم میں اور خود کو بچانے کیلئے انہوں نے رانا ثناء اللہ کو قربانی کا بکرا بنادیا ۔ دوسرے الفاظ میں دباؤ میں آکر ان کو بر طرف کردیا ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ رانا ثناء اللہ واحد شخص ہیں جن پر موجودہ بحران کا ملبہ ڈال دیا گیا ہے ۔پاکستانی عوامی تحریک کے مرکزی دفتر پر ہلا بولنے کا حکم کس نے دیا تھا؟ ظاہر ہے کہ یہ رانا ثناء اللہ اور اسکے اختیارات سے باہر ہے کہ ایک اپوزیشن جماعت کوالگ کرکے نشانہ بنایا جائے اور ان کی حکومت مخالف سرگرمیوں کو اتنا محدود کیا جایاکہ وہ پنجاب حکومت اور خادم اعلیٰ کے خلاف کوئی خطرہ نہ بنیں ۔ یہ سارا ڈرامہ رات کی تاریکی میں پولیس نے رچایا اور عوامی تحریک کے دفتر اور ڈاکٹر قادری کے گھر پر حملہ آور ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ عوامی تحریک ایک مقبول جماعت ہے اور ان کے مدارس کے طلبہ کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ان کی طرف سے زبردست مزاحمت ہوئی جس کی وجہ سے پولیس کو اپنی مکمل قوت استعمال کرنی پڑی ۔ مزاحمت اتنی شدت اور سخت تھی کہ پولیس براہ راست فائرنگ پر اتر آئی ۔ تقریباً سو کے قریب لوگ پولیس کی گولیوں سے زخمی ہوئے ۔ زیادہ لوگوں کو گولیاں جسم کے اوپر ی حصے میں لگیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو گولی مار کر ہلاک کیاجائے ۔ ٹی وی کیمروں نے تو کمال کرکے دکھایا کہ پولیس کی بربریت کیا ہوتی ہے اور وہ،، دشمن ،، پر کس طرح حملہ آور ہوتی ہے۔ کیمرے نے صاف اور واضح طریقے سے دکھایا اور لوگوں کو مجبورکیا کہ وہ ان حقائق سے انکار نہ کریں ۔ خادم اعلیٰ پنجاب جو ابتدائی دنوں سے’’ متحدہ پنجاب‘‘ کے وزیراعلیٰ بننے کے انتظار میں تھے پریشان نظر آئے اور ان کے تمام خواب ڈراؤنی ثابت ہونے والے ہیں ۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے ایک منصوبہ کے تحت پنجاب صوبائی اسمبلی میں اتنی توسیع کرائی کہ اگر لاہور متحدہ پنجاب کا دارالخلافہ ہو تو اس کے لئے اتنی ہی بڑی اسمبلی ہال موجود ہو ۔ہال کی گنجائش 800ممبران سے زیادہ ہے ۔ اتنے بڑے خواب دیکھنے ولے کو یہ مایوسی ہورہی ہے کہ قادری صاحب ان کو تخت لاہور سے محروم کررہے ہیں ان واقعات نے واضح طورپر ایک سیاسی بحران کا روپ دھارلیا ہے ۔اس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں ٹارگٹ ہیں ۔ شہباز شریف تو بہت روئے اور نواز شریف بہت چیخے اور شور مچایا کہ وہ معصوم ہیں مگر ان کی ایک نہیں سنی جارہی ہے۔ دونوں بھائی بحران کے مرکزی کردار ہیں ۔ ان کے خلاف تنقید روز بروز تلخ اور سخت ہوتی جارہی ہے اور یہ تنقید کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس میں زیادہ تیزی اور گرمی اس وقت آئے گی جب ڈاکٹر قادری وطن واپس آئیں گے اور اپنی جارحانہ تقاریر کا سلسلہ شروع کریں گے تاوقتیکہ شریف برادران کی حکومتوں کا خاتمہ نہ ہوجائے ۔