ہوائی حملوں کے بعد پاکستانی افواج نے شمالی وزیرستان میں زمینی آپریشن شروع کردی ہے ۔جبکہ ہوائی حملوں کا دائرہ کار شمالی وزیرستان سے بڑھا کر خیبر ایجنسی تک پھیلایا گیا جہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ۔ ان فضائی حملوں میں اب تک سینکڑوں دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ابھی تک دہشت گردوں کی جانب سے کوئی بڑی جوابی کارروائی نہیں کی گئی۔ شاید پاکستان فضائیہ نے ان کے کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنایا اور ان کی مواصلاتی نظام کو تباہ کردیا ہے ۔ ان حملوں میں ان کے مواصلاتی نظام کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے اسلحہ کے ڈپو اور تربیتی مراکز بھی تباہ کئے گئے ۔ ابھی تک پاکستانی افواج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ یہ پہلی بار ہے کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کررہی ہے اس میں ’’ اچھے ‘‘ اور’’ برے‘‘ طالبان میں کوئی تمیز نہیں ہے ۔ سب کے خلاف کارروائی ہورہی ہے ان میں حافظ گل بہادر اور ملا نذیر کے گروپ بھی شامل ہیں۔ ان کے ساتھ حکومت پاکستان نے الگ الگ امن کے معاہدے کیے تھے۔ ان سب کے خلاف کارروائی ہورہی ہے ۔ اس زمینی کارروائی کی وجہ سے تین لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کرچکے ہیں ۔ا ن میں سے اکثریت حکومت کی سرپرستی میں قائم کیمپوں میں نہیں گئے بلکہ وہ اپنی رجسٹریشن کراکر اپنے رشتہ داروں یا کرایہ کے مکانوں میں رہنے لگے ہیں ۔ حکومت نے فی خاندان 15ہزار روپے نقدا ادا کردیا ہے ۔ چیک پوائنٹ پر رجسٹریشن کروانے کے بعد ان کو رقم دی گئی ہے ۔ دوسری جانب دنیا بھر کی نگاہیں شمالی وزیرستان کے آپریشن پر ہیں ۔ گزشتہ دنوں امریکا کے دو جنرل صاحبان آئے اور انہوں نے فوجی حکام سے بات چیت کی ۔ ان کی تفصیلات کا علم نہیں مگر اس سے امریکا کی یہ خواہش نظر آتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کامیاب ہو اور امریکا اس کے لئے ممکنہ مدد کرنے کوتیار ہے ۔ اس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کے علاوہ افغان سرحد کی زیادہ سخت نگرانی شامل ہے تاکہ دہشت گرد افغانستان فرار نہ ہوسکیں ۔ امریکا اور افغانستان کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان کی سرحد سے افغانستان پر دہشت گرد حملہ آور ہوتے ہیں جن میں امریکی افواج کا بھی جانی نقصان ہوتا ہے ۔ پاکستان نے ان الزامات کی بھرپور انداز میں تردید کی ہے اور یہ توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا اور افغانستان بین الاقوامی سرحد بند کردیں گے اور دہشت گردوں کو فرار ہونے میں کوئی مدد نہیں کریں گے یا ان کی کوئی معاونت نہیں کریں گے البتہ حکومت پاکستان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیاجائے اور ان کو پاکستان کے حوالے کیاجائے ۔ ملا فضل اللہ سوات آپریشن کے دوران فرار ہوگئے تھے اور انہوں نے افغانستان میں پناہ حاصل کر لی۔ نہ صرف انہوں نے پناہ حاصل کی بلکہ انہوں نے افغانستان کی سرحد پار کرکے پاکستان پر حملے کیے اور لوگوں اور سیکورٹی اہلکاروں کو شہید کیا اور بعض کو با قاعدہ ذبح کیا ۔ حکومت پاکستان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ امریکا اور افغانستان آرمی ان کے خلاف کارروائی کرے او ران کے اڈوں کو تباہ کرے تاکہ وہ پاکستان پر آئندہ حملہ آور نہ ہوسکیں ۔ امریکا سے بھی یہ جائز توقع ہے کہ وہ ملا فضل اللہ اور اس کے گروپ پر ڈرون حملے کرے گا تاکہ اس کی یہ اہلیت ختم ہوجائے کہ وہ پاکستانی سرزمین پر حملہ آور ہوں۔ تاہم وزیرستان آپریشن کا خطے کے امن سے گہرا تعلق ہے ۔ اگر دہشت گردوں کا یہ بڑا اڈہ ختم ہوجاتا ہے اور حکومت پاکستان کی رٹ قائم ہوجاتی ہے تو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں امن کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں ۔یہ کارروائی حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی ہورہی ہے جس کا مطالبہ امریکا اور افغانستان کرتا آرہا ہے اس بار قوم کا پکا ارادہ ہے کہ پاکستان اور پورے خطے میں امن ہر قیمت پر قائم کیاجائے ۔ دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں پر حملے جاری ہیں تاوقتیکہ ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ پوری قوم فوجی آپریشن کی مکمل حمایت کررہی ہے ۔