سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال جسے مسلم لیگ کا ”ارستو“ کہا جاتا ہے،موصوف بھی سی پیک کے مغربی روٹ کی تعمیر کا راگ تا اختتام مسلم لیگی حکومت الاپتے رہے۔ اب یہ سلسلہ نئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی تحریک انصاف کے تازہ دم ارستو اسد عمر نے ترقی کا فلسفہ جھاڑتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ”بڑا سوچو“ چھوٹے سے شروع کرو اور پھر اس کو بڑھا دو“ اس طرح معیشت میں ترقی ہوگی وغیرہ وغیرہ‘ میں انکے الفاظ کو اس طرح تحریر کرتا ہوں کہ بڑا بن کر چھوٹے صوبوں کا استحصال کرتے ہوئے بڑھتے جاؤ اس کے ملک پر ”بڑے مثبت“ اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ طریقہ ہر دور حکومت میں رائج رہا ہے کہ چھوٹے صوبے خصوصاً بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے، اسے پاکستان کی شے رگ قرار دینے سمیت بلندوبانگ دعویٰ تو کیے جاتے ہیں لیکن عملی طورپر ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ بلوچستان کا نام اپنے کسی کام کا فیتہ کاٹنے یا کسی سٹیج پر لینے کا حکمران ورد کرتے نظر آئیں گے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔اگر ہمارے حکمران بلوچستان کے ساتھ مخلص ہوتے تو سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے عوام سوئی گیس کی سہولت پاتے، گیس پائپ لائن ان کے گاؤں بلکہ ان کے گھروں سے گزرتی ہوئی دیگر صوبوں کو جاتی ہے لیکن ان گیس پائپ لائنوں کی گیس سے وہ محروم ہیں۔ خواتین ان گیس پائپ لائنوں کے قریب سے گزرتی ہوئی تصاویر میں سروں پر لکڑیاں اٹھائے نظر آتی ہیں جو وہ جنگلوں سے کاٹ کر بطورایندھن استعمال کرتی ہیں۔
میری بات کو ایک اوروفاقی وزیر شہر یار آفریدی کے اس اعلان سے بھی تقویت ملتی ہے کہ سی پیک کے مغربی روٹ کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے لئے پشاور تا ڈی آئی خان موٹر وے جیسا بڑا ترقیاتی منصوبہ منظور کر لیا گیا ہے۔ اس مجوزہ موٹر وے کی تعمیر اس طرح ہوگی کہ اسے پشاور سے درہ آدم خیل‘ہنگو‘ بانڈہ داؤدشاہ‘ کرک کڑیا ڈومیل‘ بنوں ’سرائے نورنگ‘ لکی مروت‘ ٹانک، کلاچی سے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریشی چوک تک ہوگی۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے یہ مغربی روٹ بلوچستان کے سرحدی شہر ژوب سے منسلک ہے جس کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے لیکن یہاں آ کر وفاقی وزیر کی باتیں رک جاتی ہیں، ان کے پاس بلوچستان کی مغربی روٹ کی تعمیر بارے نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔
کیونکہ بلوچستان کی آواز نہ تو ایوانوں میں بلند ہوتی ہے اور اگر کوئی بلند کرے بھی تو کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ہمارے قومی رہنماؤں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان‘ پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمنٰ کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک سڑک کا افتتاح کرتے ہوئے اسے مغربی روٹ کا نام دے کر جس طرح“ ماموں“ بنایا اور ان رہنماؤں نے بھی ”ماموں“ بننا اپنی خوش نصیبی سمجھا کیونکہ وہ مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں کے سربراہان تھے،یہ کیسے پوچھ سکتے تھے کہ مغربی روٹ کی تعمیر کہاں سے کہاں تک ہے اس کی لاگت کیا ہے یہ ژوب سے بلوچستان کے لئے کن کن شہروں سے گزرے گی۔
یہ سوال آج تک تشنہ طلب ہے کہ اس بارے میں حالات اور حکومتیں مکمل طورپر چپ ساکت بنی بیٹھی ہیں البتہ صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت میں سی پیک کے تحت موٹر وے کی تعمیر سے متعلق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان کی زیر صدارت اجلاس کی خبر نظر سے گزری جس میں موصوف نے سوات موٹر وے کے دوسرے فیز پر تعمیراتی کام کی ذمہ داری کا فیصلہ کرنے کے لئے متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کا رواں ہفتے اجلاس طلب کرنے کی ہدایت کی۔
اس موٹر وے کے تحت چکدرہ انٹر چینج سے فتح پور تک تقریباً 80کلو میٹر انٹر چینجز اور آٹھ پلوں پر مشتمل ہوگا مذکورہ توسیع روٹ کے دونوں اطراف کی آبادی کو انٹر چینجز کے ذریعے رسائی دی جائے گی اور تفریحی مقامات پر سیاحت کو فروغ دیا جائے گا، کاش ہمارے وزیراعلیٰ صاحب بھی کبھی نیشنل پارٹی اتھارٹی اسلام آباد کے چئیرمین اور دیگر متعلقہ آفیسران کا اجلاس طلب کرنے کی جرات کرتے ہوئے ژوب تا کوئٹہ ڈیرہ اسماعیل خان تک موٹر وے کی تعمیر سمیت مغربی روٹ کے بقیہ کام کی نگرانی کریں اور جلد شروع کرنے کے احکامات صادر فرمائیں جس طرح وزیراعلیٰ سرحد اجلاس طلب کرکے اقدامات کررہے ہیں۔
ہمیں بھی اپنے صوبے کی سڑکوں کے بارے میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی روٹ کی عدم تکمیل سے جو بد گمانیاں پیدا ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں اس کا سلسلہ جاری رہے گا، سیاسی لوگوں کی زبان بند نہیں کی جا سکتی،شکوک وشبہات سے جنم لینے والی حوصلہ شکنیاں حکومتوں کے لئے نیک فال ثابت نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں گائے بگائے مغربی روٹ کی عدم تکمیل پر اپنے جذبات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ جے یو آئی نظریاتی کے کنوینئر عبدالقادر لونی اور دیگر رہنماؤں نے کہا ہے کہ وفاق مغربی روٹ کے حوالے سے اپنے وعدے کی پاسداری کرے،مغربی روٹ کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات کیے جائیں، سی پیک کے مغربی روٹ‘ انر جی پارک‘انڈسٹریل زون‘ فائبر آپٹیکل اور ریلوے لائن پر کام کے آغاز سے ہی عوام مطمئن ہوں گے۔
سی پیک 45ارب روپے کا منصوبہ ہے مغربی روٹ کی تعمیر سے ملک میں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں راہداری منصوبے کے لئے گوادر‘ کوئٹہ ژوب‘ ڈیرہ غازی خان لائن پر موٹر وے بنایا جائے تاکہ ترقی و خوشحالی کی راہیں ہموارہوں،بلوچستان کو سی پی کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دیاجائے۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ کی توسیع کا اعلان صوبائی سطح پر کی جا چکی ہے فوری طورپر اسے دور رویا بنانے کے لئے کام کا آغاز کیاجائے،سی پیک کے تحت کوئٹہ کے بائی پاسز کو چوڑا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مغربی بائی پاس پر نئی آبادیوں کے قیام سے اس سنگل سڑک پر ٹریفک کا دباؤ انتہائی زیادہ بڑھ چکا ہے۔
جہاں بڑے ٹرالرز‘ کوچ گاڑیوں کے دفاتر بن چکے ہیں عام چھوٹی گاڑیوں کے مالکان کو اس سڑک پر شدید ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،سڑک کی چوڑائی انتہائی کم ہو کر رہ گئی ہے،نئی نئی بلڈنگیں بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑی شاہراہ کے آس پاس تیزی سے بنائی جارہی ہیں، مستقبل میں سڑک کو دو رویا کرنے کیلئے ان بلڈنگوں کو مسمار کرکے بڑی بڑی رقوم دینے کی روایت دہرانے سے پہلے ہی انہیں بلڈنگ کوڈ پر عمل کرنے کا پابند بنایاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بہر حال کوئٹہ کی تمام چوٹی بڑی سڑکوں کی تعمیر کی اشدضرورت ہے ان سڑکوں کو مزید کشادہ کرنے پر بھرپور توجہ دی جائے،موجودہ وقت میں کوئٹہ کی ایک سڑک بھی ایسی نہیں رہی جہاں دن اور شام کے وقت ٹریفک جام نہیں رہتی،سڑکوں کی چوراہوں کو چوڑا کرکے ٹریفک کو بہتر بنایاجائے،کاش ہماری آواز حکمرانوں کے کانوں تک پہنچ سکے تو خوشی ہوگی۔