دنیا بھرمیں تہذیب یافتہ ممالک میں مذہبی تہوار اور خوشی کے مواقع پر دکاندار سستی اشیاء فروخت کرتی ہیں ۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی ان تہواروں کی خوشیوں میں شریک کیا جائے ۔ اسی وجہ سے ان ممالک میں ایسے مواقع پر زبردست سیل لگی رہتی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ خصوصاً پسماندہ طبقات کے لوگ ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ پاکستان بھر میں روایات تہذیب یافتہ دنیا سے بالکل برعکس ہیں ۔ یہاں ضرورت کی اشیاء پہلے غائب کر لی جاتی ہیں یا ان کی ذخیرہ اندوزی بڑے بڑے لوگ اور تاجر حضرات حکومت وقت کی سرپرستی میں کرتے ہیں ۔اس کا مقصد ان اشیاء کی قلت کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور بعدمیں زیادہ قیمت پر بڑے دکاندار اور دوسرے لوگوں ان اشیاء کو فروخت کرتے ہیں ۔ بات یہیں نہیں رکتی ، چھوٹے دکاندار اورریڑھی والے اس میں دو گنا اضافہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ضرورت اور روز مرہ میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ عام اور غریب لوگوں کے دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں ۔ رمضان کے موقع پر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے یہ مطالبہ کردیا کہ لاکھوں ٹن زائد شکر کو افغانستان اور دوسرے ممالک کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے ۔ ظاہر ہے شکر ضرورت کی شے ہے اور رمضان میں اس کو سب لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ اس وقت ایسوسی ایشن کو یہ خیال آیا کہ ’’ زائد شکر ‘‘ جو گوداموں اور سرحد پر پہلے سے پڑی ہے اس کو افغانستان بر آمد کرنے کی اجازت دی جائے ۔ وزیراعظم اور اس کے خاندان کی شکر کی پیداوار میں اجارہ داری ہے ۔ وزیراعظم کے یہ ذاتی اور خاندانی مفادمیں ہے کہ شکر کو رمضان میں ہی افغانستان برآمد کیاجائے ۔ ایک تو اس سے زائد آمدنی مل جائے گی اور دوسری طرف مقامی مارکیٹ میں اس کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوگا۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ۔ کئی لاکھ ٹن شکر نواز شریف اور ان کے خاندان کے ملوں میں پڑی ہوئی تھی ۔ خاندان کے لوگوں نے حکومت سے معاہدہ کیا کہ اس وقت بازار میں فی کلو شکر کی قیمت 19روپے ہے ۔ حکومت ان کو اجازت دیتی ہے کہ وہ بازار میں اپنا تمام اسٹاک 28روپے فی کلو فروخت کریں ۔معاہدہ ہوگیا ،جب نوازشریف سے اس معاہدہ پر عمل کرنے کی اجازت ان کے خاندان کے لوگوں نے چاہی تو انہوں نے انکار کردیا ۔ 30لاکھ ٹن گوداموں میں موجود تھا ۔ بازار میں شکر کی قلت پیدا کی گئی بلکہ جان بوجھ کر قلت پیدا کی گئی اور شکر کی قیمت 100روپے فی کلو بلوچستان میں فروخت ہوئی ۔ باقی پاکستان میں اس کی قیمت 70روپے کلو ہوگئی۔ صرف اس وجہ سے کہ شکر کی ذخیرہ اندوزی ہوئی ۔ اس طرح سے پاکستان کے غریب عوام کو لوٹا گیا اوروہ بھی حکومت کی مرضی سے ۔ اچھی اور عوام دوست حکومت وہ تمام اسٹاک ضبط کرتی اور بازار میں مناسب قیمت پر فروخت کرتی اور ذخیرہ اندوزوں کو جیل میں ڈالتی تو آئندہ کوئی تاجر یا صنعت کار ذخیرہ اندوزی کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ اس بار بھی شکر سرحد پر پہلے ہی پہنچا دی گئی ہے اور شکر مافیا حکومت سے بہانے سے یہ اجازت چاہتی ہے کہ اس کی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اجازت تو ضرور ملے گی اس کے لئے بہانے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا زیادہ منافع یا آمدنی وزیر اعظم اور اس کے خاندان کو ملے گی ۔ لہذا ہماری قسمت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ مجبوراً ہم مہنگی اشیاء خصوصاً ضرورت کی اشیاء خریدیں اور حکومت وقت کی مرضی سے خریدیں ۔