|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2019

لورالائی : عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماں نے بسم اللہ خان لونی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک حقیقی سیاسی کارکن حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور کبھی مایوس نہیں ہوتا موجودہ وقت پشتونوں کی سیاسی قیادت سے اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ آپسی اختلافات بھلا کر اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرے اور پشتونوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنا فعال اور متحرک کردار ادا کرے۔

نہ صرف سیاسی کارکنوں بلکہ تمام مکاتب فکر کے افراد اور اسٹیک ہولڈرز کا فرض ہے کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ اور جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لیے مل جل کر کوششیں تیز کی جائیں بسم اللہ خان لونی نے تمام عمر باچاخانی فکر اور فلسفے سے وابستہ رہتے ہوئے معاشرے کی ترقی اور تمام طبقات کے مسائل کے حل کیلئے اپنا فعال کردار ادا کیا۔

ان خیالات کا اظہار عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و صوبائی پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی، صوبائی جنرل سیکرٹری مابت کا کا، رشید خان ناصر،عبدالخالق خان ناصر،پشتونخوامیپ کے سابق صوبائی وزیر عبیداللہ خان بابت، جمعیت علما اسلام کے مولوی فیض اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے اصغر علی ترین،سید عبدالباری آغا،اصغر خان اتمانخیل،ہدایت اللہ خان کاکڑ،سردار گل مرجان کبزئی،گنو خان غلزئی، راز محمد ترکئی،شمس اللہ وردگ و دیگر مقررین نے عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر مرحوم بسم اللہ خان لونی کے چہلم کے موقع پر عبدالرحیم خان کلب لورالائی میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب میں عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے صوبائی و ضلعی رہنماں اور کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے بسم اللہ لونی کو ان کی سیاسی، قومی، وطنی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بسم اللہ لونی نے ایک حقیقی سیاسی کارکن کی حیثیت سے پوری زندگی قومی حقوق کے حصول، عوام کی ترقی وخوشحالی اور جمہوریت و جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے گزاری بسم اللہ لونی باچاخان بابا کے فکر و فلسفے پر چلتے ہوئے پشتونوں کی اجتماعی قومی سیاسی بیداری او عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کی انہوں نے زمانہ طالبعلمی سے لے کر پھر مرتے دم تک قومی عوامی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا ہوا تھا۔

ایک حقیقی سیاسی کارکن کی حیثیت سے بسم اللہ لونی نے جدوجہد کی راہ میں آنے والی مشکلات، مصائب اور پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور کسی قسم کی کمپرومائز نہیں کی وہ سیاسی کارکنوں کے لئے ایک روشن مثال ہیں جن کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوگا۔

مقررین نے ملک میں جمہوریت کے فروغ اورجمہوری اداروں کے استحکام کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج اگر ملک میں تھوڑی بہت لولی لنگڑی جمہوریت ہے تو اس کا سہرا ہمارے اکابرین کے سر جاتا ہے جنہوں نے جمہور کی حکمرانی کے لئے قید و بند اور دیگر مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اگر ہمارے اکابرین اپنی جدوجہد سے دستبردار ہوجاتے تو شاید ان کی ذاتی زندگیاں تو بدل جاتیں لیکن آج ملک میں یہ جو تھوڑی بہت جمہوریت ہے یہ نہ ہوتی لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہمارے اکابرین نے اپنے نظریات اور جدوجہد پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا۔

ہمارے اکابرین نے ہر طرح کے مصائب اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اپنے وقت کے آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی مثالی جدوجہد کو ہم تک منتقل کیاا ب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کے حقوق کے حصول اور معاشرے کو امن ترقی اورخوشحالی کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنا فعال اور متحرک کردار اد اکریں۔