تقریباً ہر سال گرمیوں میں کاشت کار نہروں میں پانی کی قلت کی شکایت کرتے رہے ہیں ۔ بلوچستان میں یہ شکایت دوسرے صوبوں کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔ وجہ، بلوچستان دریائے سندھ کے نہری نظام میں آخری حصے پر واقع ہے ۔ اوپری حصے والے اپنی ضروریات یا اس سے زیادہ پانی اپنے طاقت کے بل بوتے پر چوری کرتے کرتے ہیں ۔ افسران ‘ انتظامی ہوں یا ان کا تعلق آبپاشی سے ہو ان طاقتور وڈیروں کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ آخری حصے میں طاقتور وڈیرے بھی بے بس نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ نہری نظام کے آخری حصے میں پانی پہنچتا ہی نہیں ہے ۔ ان وڈیروں اور طاقتور لوگوں کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ البتہ اخباری نمائندوں کو بلا کر شور غوغا کرتے رہتے ہیں ۔ بلوچستان میں پٹ فیڈر سب سے بڑا کینال ہے جس میں تقریباً 6000کیوسک پانی کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ یہ اس کا جائز حصہ ہے مگر آج کل اس نہر میں پانی کا بہاؤ صرف 2000کیوسک یعنی صرف ایک تہائی ہے۔ ‘ گرمیاں ہیں برف کے پگلنے کا عمل زیادہ تیز ہوگیا ہے ۔ بالائی علاقوں میں بارشیں بھی ہورہی ہیں ۔ سوات اور اس کے معاون دریاؤں میں سیلاب آیا ہوا ہے ۔ مگر زیریں علاقوں میں پانی کی قلت زیادہ ہے صرف 2000کیوسک پانی سے چاول اور دوسرے فصلوں کی بوائی بھی تیس فیصد تک رہے گی ،پانی نہیں ہے تو چاول کی کاشت کیسے ہوگی ۔ مقامی کاشت کار اور محکمہ آبپاشی کے اہلکا سندھ حکومت اور اس کی انتظامیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ سندھ سے پانی کا بہاؤ کم ہے سندھ سب سے پہلے اپنی ضرورت مکمل کرنے کے بعد میں اضافی پانی بلوچستان کو فراہم کرے گا ۔ پٹ فیڈر میں پانی کی کمی کے باعث لاکھوں ایکڑ زمین آباد نہیں ہوسکی گی ا ور اسی طرح کیرتھر کینال میں 2400کیوسک پانی کے بجائے صرف 1200 کیوسک پانی سندھ سے فراہم کیا جارہا ہے۔ اس طرح کیر تھر کینال کے تحت علاقے میں 50 فیصد بوائی کم ہوگی ۔ روز مرہ کی پانی کے بہاؤ کے علاوہ سیلابی پانی سے بلوچستان کا حصہ 10,000دس ہزار کیوسک بنتا ہے ۔ اس سے بھی بلوچستان کو محروم رکھا گیا اور آج کل نہری پانی کی سپلائی صرف 3500کیوسک ہے ۔ ظاہر ہے اس سے پیداوار کم ہوگی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ لاکھوں کاشت کاروں کے لئے اس سال کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوگا۔ اس قلت سے بلوچستان کی معیشت پر شدید اورمنفی اثرات پڑیں گے جو ملکی معیشت کیلئے نیک شگون نہیں ہے ۔ نصیر آباد واحد نہری علاقہ جہاں سے بلوچستان کی حکومت توقع کرسکتی ہے کہ وہاں اتنی غذائی پیداوار ہوگی جس سے بلوچستان غذائی طورپر خود کفیل ہوسکتا ہے مگر نہری پانی کی قلت اور سندھ حکومت کا معاندانہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان اپنے غذائی اجناس کے اہداف اس سال حاصل نہیں کرسکے گا۔ لوگ یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ صوبائی حکومت ان معاملات کو وفاق اور سندھ حکومت کے ساتھ اٹھائے گی تاکہ بلوچستان میں نہری پانی کی قلت ختم ہوجائے ۔
نہری پانی کی قلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ پٹ فیڈر اور کیر تھر کینال لوگوں کے پینے کے پانی کا ذریعہ ہے ۔ مال مویشوں کو بھی پانی انہی نہروں سے پلایا جاتا ہے ۔ نہروں کے آخری حصوں میں پانی بالکل نا پید ہے اس لئے لوگ اور مال مویشی پینے کے پانی کے محتاج ہیں حکومت کے پاس کوئی متبادل انتظام نہیں ہے کہ وہ پینے کا پانی دور دراز علاقوں کو فراہم کر سکے ۔ پانی کی قلت کے باعث ان علاقوں میں مال مویشی بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔اس کا واحد حل بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی مہیا کیا جائے اور سندھ حکومت بلوچستان کے خلاف اپنا معاندانہ رویہ ترک کرے ۔