گزشتہ دنوں زیارت کے جوڈیشل مجسٹریٹ میر ساقا دشتی کو ان کے گارڈ اور ڈرائیور سمیت اغواء کر لیا گیا ۔ وہ زیارت سے کوئٹہ آرہے تھے کہ چھ مسلح افراد نے زیارت پشین موڑ کے قریب بندوق کے نوک پر ان کی گاڑی کو روکا اور سب کو یرغمال بنا لیا ۔ تاہم مسلح محافظ اور ڈرائیور کو سرانان کے قریب چھوڑ دیا اور نا معلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔ بعد میں مقامی پولیس نے مسلح محافظ کو پوچھ گچھ کے لئے روک لیا اور اس سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ اغواء کاروں کا معلوم نہ ہو سکا اور نہ ہی کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ تاہم یہ واقعہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ ان کے اپنے نظام میں جوڈیشل مجسٹریٹ بھی محفوظ نہیں ۔ حیرانگی کی بات ہے کہ آج تک اغواء کاروں کا پتہ نہ لگ سکا اور نہ ہی اہم لوگوں کو اغواء کرنے والے گرفتار ہوئے ۔یہ ایک پیچیدہ سوال ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ریاست اور حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں جو اپنے من پسند لوگوں کو اغواء کرتے ہیں۔ سوئس جوڑا ڈیرہ غازی خان سے اغواء ہوجاتا ہے اور بعد میں سوئس حکام کے حوالے بھی کیا جاتا ہے ۔ ایک خاتون ایران سے کوئٹہ آتے ہوئے اغواء ہوگئی ۔ آج تک ان کا پتہ نہیں چلا کہ کن لوگوں نے اور کیوں اس غیر ملکی سیاح کو اغواء کیا ۔ نواب کاسی آج تک بازیاب نہیں ہوئے ،ان کودیدہ دلیری سے کوئٹہ شہرکے وسط سے اغواء کیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اغواء کاروں کو حکومت اور ریاست کی جانب سے کوئی خوف نہیں تھا اور ان کو یقین تھا کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا ۔ اغواء برائے تاوان کے لئے سینکڑوں کروڑ پٹی موجود ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اغواء کا تاوان وصول کرنے سے کوئی تعلق نہیں ۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کے اغواء پر وکلاء اور سماج کے دوسرے حلقے پریشان ہیں کہ وہ شخص جو قانون کا محافظ ہے اور اس کی رکھوالی کرتا ہے اور لوگوں کو انصاف مہیا کرتا ہے وہی اغواء کیا جاتا ہے ۔ اس کے پاس تو دولت نہیں ہے کہ اس کو دولت کے بل بوتے پر اغواء کیا جاتا ہے ۔ پھر ان کی اور ان کے خاندان کی کسی سے دشمنی نہیں ہے کہ اس کو ذاتی دشمنوں نے اغواء کیا ۔ البتہ وہ اپنی ذات کی اہلیت پر ایک قابل احترام افسر ہیں ۔ وہ مشہور دانشور اور سابق سرکاری افسر میر جان محمد دشتی کے صاحب زادے ہیں ۔ ان کے والد پر دن دیہاڑے کوئٹہ شہر میں گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور وہ شدید زخمی ہوئے ۔ کئی ماہ تک وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور آخر کار برطانیہ میں انہوں نے اپنا علاج کرایا ۔ آج تک کسی بھی گروہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے جان محمد دشتی کو قتل کرنے کی کوشش کی نہ ہی حکومت کو دل چسپی ہے کہ وہ یہ پتہ لگائے کہ ان پر کس نے قاتلانہ حملہ کیا اور کیوں کیا؟ جان محمد دشتی کا قصورصرف اتناتھا کہ وہ ایک دانشور ہیں اور سرکاری ملازمت میں انہوں نے بلا امتیاز انسانوں کی خدمت کی ۔ شاید انسانی خدنت یا ان کے ذاتی خیالات لوگوں کو پسند نہیں آئے اوران پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ میر ساقا دشتی کو بحفاظت بازیاب کرائے اور جلد کرائے ۔ اس تاثر کوحکومت غلط ثابت کرے کہ میر جان محمد دشتی ‘ جو ایک غیر سیاسی اور غیر متنازعہ شخصیت ہیں ان کی وجہ سے ان کے صاحبزادے کونقصان پہنچایا جائے ۔ بہر حال حکومت اس کی زندگی کا ذمہ دار ہے اور ان کو بحفاظت جلد سے جلد بازیاب کرایا جائے ۔