|

وقتِ اشاعت :   July 5 – 2014

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں پچھلے سال جنوری سے اپریل تک آٹھ اور رواں سال اب تک پولیو کے انسٹھ کیسز سامنے آچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں پولیو کے مرض کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیو ملک میں پچھلے سال کی نسبت چھ گنا بڑھ چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کو دنیا بھر میں پولیو وائرس کا سب سے بڑا گڑھ پہلے ہی قرار دے چکاہے۔ رپورٹ کے مطابق اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں پایا جانے والا پولیو کا نوے فیصد وائرس جینیاتی طور پر پشاور میں موجود وائرس سے جڑا ہوا ہے۔ دوماہ پہلے وزیراعظم پاکستان کا خصوصی سیل بھی صوبے میں چوبیس کیسز کی تصدیق کرچکا ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ شمالی وزیرستان ہے، جہاں انیس کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پولیو کے مریضوں میں میران شاہ کے تیرہ اور میرعلی کے چھ بچے شامل ہیں۔ فاٹا میں مجموعی طور پر چھیالیس کیسز سامنے آئے ہیں، جبکہ سندھ میں چار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے پولیو کے خاتمے کے لیے بنوں میں شمالی وزیرستان سے آنے والے آئی ڈی پیز کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا عمل بھی جاری ہے۔ اس مقصد کے لیے بنوں کے تمام اسپتالوں اور دیگر مقامات پر پولیو ویکسینیشن پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق نقل مکانی کرنے والے افراد کی جانب سے پولیو کے قطرے پلانے پر کوئی مزاحمت سامنے نہیں آرہی۔ بنوں کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر اکبر جان مروت کے مطابق شمالی وزیرستان سے آنے والے خاندانوں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کےلیے بنوں میں خاطر خواہ اقدامات کئے گئے ہیں،۔ ان کے مطابق ڈسٹرکٹ بنوں کے تمام اسپتالوں میں ٹیمیں فعال ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بنوں میں آنے والے آّئی ڈی پیز کے بچوں کی ویکسی نیشن کےلیے یہ ایک اچھا موقع ہے اور یہ عمل خوش اسلوبی سے نمٹ جائے گا۔ ڈاکٹر اکبر جان مروت نے مزید بتایا کہ رواں سال سب سے زیادہ پولیو کے کیسز شمالی وزیرستان سے سامنے آئے، جس کی وجہ سے بنوں کو پولیو وائرس سے زیادہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ تاہم حکومت ، فوج اور ورلڈ ہیلٹھ آرگنائزیشن کے تعاون سے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو بنوں میں پولیو کے قطرے پلانے کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ دوسری جانب آج بروز ہفتہ سے کراچی اور پشاور میں انسداد پولیو مہم شروع ہورہی ہے۔ کراچی میں ہنگامی پولیو مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اورآج شہر کے چھہ ٹاؤنز کی سولہ یونین کونسلوں میں انسداد پولیو مہم چلائی جاری ہے۔ پاکستان میں پولیو کا مرض ختم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اس کی ویکسین کے خلاف پروپیگنڈہ بھی ہے۔ بہت سے والدین منفی ویکسین کے حوالے سے قائم منفی تاثر کی بنا پر اپنے بچوں کو اس سے دور رکھتے ہیں۔