کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنائی جانے والی سزا پر اظہار خیال کے دوران تند و تیز جملوں کا تبادلہ کان پڑی آواز سنائی نہ دی، دنیش کمار کا اپوزیشن کے ریمارکس پر واک آؤٹ،غیر پارلیمانی الفاظ حذف کرنے کردئیے گئے۔
جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر صوبائی وزیرخزانہ ظہور بلیدی نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنائی جانے والی سزا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے پورے ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے قانون خود یہ کہتا ہے کہ اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہے تو اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا مکمل حق حاصل ہے پوری دنیا کی تاریخ دیکھیں تو بربریت کے زمانے میں ایسا ہوتاتھا کہ لوگوں کو گھوڑوں کے پاؤں تلے روندھا جاتا تھا بربریت کی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
ہم نہیں کہتے کہ پرویز مشرف قانون سے بالاتر ہے اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کے مقدمے کی سماعت نہیں کی جانی چاہئے تھی ہم یہ کہتے ہیں کہ جو طریقہ کار بادشاہوں کے دور میں اپنایا جاتا تھا وہ اب نہ ہو۔ اس فیصلے سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی ہے شاید سترہویں صدی میں ایسے اقدامات ہوتے رہے ہوں گے اس موقع پر اپوزیشن کے ارکان اورظہور بلیدی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا بیک وقت کئی ارکان نے کھڑے ہو کر بولنا شروع کردیا۔
اپوزیشن ارکان نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر یہاں بحث نہیں کی جاسکتی انہوں نے پرویز مشرف کو تنقید کابھی نشانہ بنایا سپیکر نے کہا کہ فیصلے پر بات ہوسکتی ہے اس موقع پر سپیکر نے بی این پی کے ثناء بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ چیئرسے متعلق اپنے الفاظ واپس لیں جس پر انہوں نے اپنے الفاظ واپس لئے تاہم ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اپوزیشن ارکان اور حکومتی بینچوں سے ارکان مسلسل بولتے رہے۔
بی اے پی کے دنیش کمار کے اپوزیشن ارکان کے ساتھ سخت اور تلخ جملوں کا بڑی دیر تک تبادلہ جاری رہا دونوں جانب سے ارکان کے مسلسل بولنے سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیی اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئر مین کے رکن قادر علی نائل اپوزیشن ارکان کو بیٹھنے اور صوبائی وزیر خزانہ کی بات سننے کی ہدایت کرتے رہے تاہم دونوں جانب سے ارکان مسلسل بولتے رہے اور بار بار ان کے درمیان سخت اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔
اس موقع پرپینل آف چیئر مین کے رکن قادر علی نائل نے تمام غیر پارلیمانی الفاظ حذف کرنے کی ہدایت کی بحث کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو کے ریمارکس پر بی اے پی کے دنیش کمار نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہماری برادری کے بارے میں ایسی بات کرنے کا حق نہیں۔
انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا اختر حسین لانگو نے وضاحت کی کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا تاہم اگر معزز رکن کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں بعدازاں دنیش کمار کو منا کر واپس ایوان میں لانے کے لئے قادر علی نائل نے حکومتی اور اپوزیشن اراکین کو بھیجا جس کے بعد دنیش کمار احتجاج ختم کرکے ایوان میں واپس آگئے۔
اس موقع پر قادر علی نائل نے اپوزیشن ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صوبائی وزیر خزانہ کو اپنی بات مکمل کرنے دیں اس کے بعد وہ اپنا موقف بھی پیش کرسکتے ہیں تاہم اس کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے کئی۔
ایک ارکان مسلسل کھڑے ہوکربولتے رہے جس پر چیئرمین قادر علی نائل نے اپوزیشن ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو وہ اجلاس ختم کردیں گے جس پر اپوزیشن ارکان نے موقف اختیار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر طویل گفتگو ہوچکی ہے لہٰذا ایوان کی کارروائی نمٹائی جائے۔ پینل آف چیئر مین کے رکن قادر علی نائل نے کہا کہ وزیر خزانہ اپنی بات پوری کرلیں جس کے بعد کارروائی شروع کی جاسکتی ہے۔
اس موقع پر ظہور بلیدی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں تمام ارکان کو اپنی بات کرنے کی مکمل اجازت ہے میرا مقصد نہ تو کسی کی پیروی کرنا اور نہ ہی کسی کی پگڑی اچھالنا ہے اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور کوئی جرم کیا ہے تو اسے قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہئے اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا تاہم میرے موقف پر اپوزیشن کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی کی حمایت نہیں کررہا لیکن سابق صدر کے حوالے سے جو فیصلہ آیا ہے اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر وہ فوت بھی ہوجائیں تو ان کی میت ڈی چوک پر لا کر لٹکائی جائے اس طرح کیسے ہوسکتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک مہذب دنیا میں رہتے ہیں اور پوری دنیا انسانی اقدار میں کافی ترقی کرچکی ہے ماضی میں ظالم جابر بادشاہ ایسے فیصلے کرتے ہوں گے۔
سترہویں صدی کے ایک واقعے کو بنیاد بنا کر اس قسم کا فیصلہ دینا درست نہیں بلکہ قابل مذمت ہے یہاں موجود ارکان سمیت کوئی سیاسی جماعت یا انسان کسی مردے کو لٹکانے کی بات نہیں کرسکتا ہم انسانیت کی بات کرتے ہیں اورمیں یہی موقف بیان کرنا چاہ رہا تھا تاہم اپوزیشن نے جو صورتحال پیدا کی وہ سب کے سامنے ہے۔