|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2019

سطح سمندر سے 5688 فٹ کی بلندی پر واقع گورک ہل جسے بلوچی زبان میں گرک کوہ کہا جاتا ہے۔ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔ بکھری ہوئی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے مگر یہ علاقہ دور جدید میں بھی سکول کی سہولت سے محروم ہے۔ سکول سے محروم علاقے کے بچوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنے کے لیے گل محمد بلوچ رضاکارانہ بنیادوں پر بطور استاد خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ عمارت کی عدم دستیابی کے باعث انہوں نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر نہ صرف ٹینٹ اور ٹاٹ کا انتظام کروایا بلکہ بچوں کے لیے بستہ اور کاپی کتابوں کا بندوبست بھی کیا۔ یوں اس کی جدوجہد رنگ لے آئی جہاں تعلیم کا تصور ہی نہیں تھا اب وہاں تدریس کا آغاز ہو چکا ہے۔

گل محمد بلوچ کا بنیادی تعلق لیاری سے ہے مگر ان کا خاندان گزشتہ 25 سال سے کراچی کے علاقے فقیر کالونی اورنگی ٹاون میں مقیم ہے۔ 14 سال تک صحافتی شعبے سے وابستہ رہے صحافتی میدان میں پیدا ہونے والی بحران نے انہیں صحافت کے شعبے سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کیا صحافتی کیریئرکے دوران وہ مختلف اخبارات کے علاوہ جیوٹی وی اور اب تک نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر کام کرتے رہے ذریعہ معاش کے حصول نے انہیں ایک دوست کے ساتھ مل کر گورک ہل میں مہمان خانہ کھولنے پر مجبور کیا۔ مہمان خانہ کے ساتھ ساتھ تخلیق کردہ درسگاہ کے لیے وقت نکال کر بچوں کو علم کی روشنی سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں روزانہ ڈھائی گھنٹہ بچوں کے ساتھ صرف کرتے ہیں۔

درس گاہ کا خیال کیسے آیا “جب میں پہلی بار یہاں آیا تو دیکھا کہ یہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ رونق ہے چہل پہل ہے مگر یہاں کی رنگینیوں میں سکول کا کہیں نام و نشان نہیں۔ یہاں کے بچے چرواہا تو ہیں مگر طالبعلم نہیں۔ تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ جس علاقے سے ہم حصول معاش لینے آئے ہیں تو کیوں نہ علاقے کو کچھ دے جائیں تو میں نے علمی درسگاہ کی بنیاد اس نیت پر رکھی کہ یہی بچے پڑھ لکھ کر انہی مہمان خانوں کے مالک بن کے چلانے کے قابل ہو سکیں “۔

درس گاہ میں اس وقت داخل بچوں کی تعداد 13 ہے۔ جو گل محمد سے کلاس لینے روزانہ اسی ٹینٹ سکول کا رخ کرتے ہیں۔ تو علاقے کی بچیاں کلاس لینے کیوں نہیں آتیں۔ “بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے ابھی تک وہاں کے مقامی لوگ آمادہ نہیں۔ جب بھی ان بچوں کو پڑھاتا ہوں تو انہیں تلقین کرتا ہوں کہ یہی سبق اپنی بہنوں کو بھی پڑھائیں۔”

گورک ہل کی وادیاں جو شروع میں گل محمد کے لیے اجنبی پن اور تنہائی کا گمان پیدا کرتی تھیں اب انہیں سب کچھ اپنا محسوس ہونے لگا ہے۔ وہ بچوں اور مقامی لوگوں کے ساتھ اتنا گھل مل گیا ہے کہ زمین کا یہ گوشہ اسے اپنائیت بھرا احساس دلاتا ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کو نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر آمادہ کرتا ہے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے سپورٹس کے سامان کا بھی انتظام کر چکے ہیں۔

گورک ہل کا کہ علاقہ گو کہ انتظامی حوالے سے صوبہ سندھ کے زیر نگران آتا ہے مگر جغرافیائی اعتبار سے اس علاقے کی انسیت بلوچستان کے ساتھ ہے جہاں نہ صرف زبان کے اعتبار سے بلکہ بود و باش، ثقافتی لحاظ سے اس کی جڑت بلوچستان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرتا ہے۔ سیاحوں کے لیے اس مقام کو پرکشش بنانے کے لیے حکومت سندھ نے کچی آبادی سے پرے ترقیاتی ڈھانچے تو کھڑے کیے مگر یہ علاقہ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولت سے تاحال محروم ہے۔

علاقہ مکین چھوٹی بیماریوں کے علاج کے لیے دادو، سیہون شریف اور سندھ کے دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ گل محمد بلوچ نے جن سماجی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے سکول کا آغاز کیا ہے امید کی شمعیں روشن ہو گئی ہیں تدریس کو بنیاد گل محمد بلوچ نے فراہم کی ہے اسے جاری رکھنے کی ذمہ داری حکومت سندھ کی ہے۔