|

وقتِ اشاعت :   December 22 – 2019

بنک اور سٹاک ایکسچینج کا نام سنتے ہی عام طور پر حرام و حلال اور جائز و نا جائز کی بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔ مگر اسلامی نقطہ نظر سے کسی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سود لینا اور دینا اسلام میں قطعی حرام ہے۔ اس قطعی حرمت کے باوجود بنک کاری نظام اور سٹاک ایسچینج کی بنیادی چیزیں سمجھنا اس دور کی ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی جس انتہائی پیچیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ زثر ہم اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں یہ دونوں چیزیں اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سب سے پہلے اگر بنکوں کی بات کی جائے تو بنیادی طور پر ان سے دو طرح کے لوگوں کا واسطہ رہتا ہے۔ ایک وہ جو اپنا پیسہ بنک میں جمع کرکے اس پر سود لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو بنک سے قرضہ لے کر بنک کو سود دیتے ہیں۔ کسی بھی بنک کی بنیاد ڈالنے کیلیے ایک سرمایہ دار یا کچھ سرمایہ دار مل کر اپنے پیسے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اصولی طور پر تو شاید یہی سرمایہ کاری کی رقم وہ واحد رقم ہو سکتی ہے جو بنک کسی دوسرے کو ادھار دے سکتا ہے۔ حقیقت میں ایسے نہیں ہوتا، ایک دفعہ بنک بن جائے تو پھر بنک میں سود لینے کی خاطر جمع شدہ رقم کو بھی اپنے سرمایہ کاری کی رقم میں شامل کرکے اس کو بھی قرض لینے والوں کو بطور قرض دے سکتا ہے۔ اس طرح بنک کا اصل کام پیسہ کی منیجمنٹ بن جاتا ہے۔

بنک کاری دراصل ایک اعتمادی چال ہے۔ یہ کس قسم کی اعتمادی چال ہے اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کیا ایک بنک کے مالکان ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرکے ایک بنک بناتے ہیں۔ اس کے بعد دس صارفین آکر دس لاکھ (ایک ملین) روپے فی صارف اس بنک میں جمع کراتے ہیں۔ صارفین کی طرف سے جمع شدہ رقم بھی سرمایہ کاری کے کھاتے میں ڈال کر بنک کے پاس مجموعی سرمایہ کاری کی رقم دو کروڑ روپے ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد تین صارف آکر بنک سے مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ کا قرض لیتے ہیں اور یوں بنک کے پاس صرف پچاس لاکھ باقی رہ جاتے ہیں۔ اب اگر پیسہ جمع کرنے والوں میں سے دو تین صارف کو یہ گمان ہوا کہ بنک ہمارے پیسے واپس نہیں کر سکتا اور وہ آکر اپنا پیسہ بنک سے نکلوانا چاہیں تو بنک کو ان کے پیسے واپس کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

دوسری طرف اگر دس کے دس پیسہ جمع کرانے والے صارفین کو بنک پر بد گمانی لاحق ہو اور اپنا پیسہ واپس لینا چاہیں تو بنک ان کے پیسے واپس نہیں کر سکے گا۔ گویا اگر زیادہ لوگوں نے یہ سوچا کہ بنک ہمارے پیسے واپس نہیں کرسکتا تو واقعتاً بنک ان کے پیسے واپس نہیں کر سکتا، اگر زیادہ لوگوں نے سوچا کہ بنک ہمارے پیسے واپس کر سکتا ہے تو وہ واقعتاً پیسے واپس کر سکتا ہے۔ چونکہ عام طور پر بہت زیادہ بنک صارفین کو بنک پر شک نہیں ہوتا اس لیے بنک چلتے رہتے ہیں۔ صارفین کو پیسے واپس کرنے کیلیے سرمایہ کاری کا کچھ حصہ بنک اپنے پاس لیکویڈ ریسورسز (کرنسی یا جلدی ہی کرنسی میں بدلنے والی چیزیں) جیسے گورنمنٹ بانڈز وغیرہ کی شکل میں رکھتے ہیں اور آسانی سے بیچ کر پیسے واپس مانگنے والوں کو پیسے واپس کرتے ہیں۔

بالفرض زیادہ لوگوں کو بنک پر شک ہو بھی جائے تو عمومی حالات میں پھر بھی بنک کسی دوسرے بنک سے قرض لے کر ان کے پیسے واپس کر سکتا ہے۔ اس لیے اس اقسام کی بد گمانیوں سے صرف اس وقت مسئلہ ہو سکتا ہے جب سب بنکوں کے صارفین کو شک ہو کہ ہمارے پیسے واپس نہیں مل سکتے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلیے سب سے اہم کردار سینٹرل بنک (پاکستان کی صورت میں سٹیٹ بنک) کا ہے۔ یہ وہ واحد بنک ہے جو کیش فلو (لیکویڈٹی فلو) کا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ جس بنک کو بھی اس قسم کا مسئلہ ہوگا اس کے اثاثوں میں لوگوں کو ادھار دی ہوئی رقم تو ہوتی ہے مگر اسے جلدی حاصل کرنا بنک کے بس میں نہیں ہوتا۔

اگر صارفین کا اعتماد کھونے والے بنک کا دیا ہوا قرضہ اپنا پیسہ واپس مانگنے والے صارفین کے پیسوں سے زیادہ ہو تو سینٹرل بنک اس کی بھرپور مدد کرتا ہے۔ اور یوں بنک ایسی صورتحال سے باآسانی نکل جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر بنک کے سارے نان لیکویڈ رسورسز (وہ اثاثے جو جلدی کرنسی میں نہ بدلے جا سکیں) بھی اتنے نہ ہوں جتنے پیسے صارفین واپس مانگ رہے ہوں تو پھر بنک کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ دیوالیہ نکلنے سے پہلے عام طور پر گورنمنٹ ایسے بنکوں کو ایک حد تک بیل آؤٹ کرتی ہے۔ بیل آؤٹ کے عمل میں گورنمنٹ اتنا پیسہ اس بنک میں جمع کرتی ہے جتنے پیسے کی اس بنک کو ضرورت ہوتی ہے تاکہ واپس مانگنے والے صارفین کے پیسے واپس کیے جا سکیں۔

گورنمنٹ کی طرف سے بیل آؤٹ کی یقین دہانی بنکوں پر صارفین کے اعتماد کو بحال رکھتا ہے۔ یوں بیل آؤٹ کرنے کی نوبت پیش ہی نہیں آتی۔ عام طور پر گورنمنٹس بیل آؤٹ انشورینس کی حد مقرر کرتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اتنی رقم تک گورنمنٹ بنک کو دے سکتی ہے اور پھر بنکس بھی اس سے زیادہ قرضے نہیں دے سکتے۔ دیوالیہ سے بچنے کا ایک اور طریقہ خطرے کو ایک حد سے کم رکھنا ہوتا ہے۔ اس طریقے میں کسی بنک میں جتنا پیسہ اس کے مالکوں (شئیر ہولڈرز) نے لگایا ہوتا ہے اس کی ایک مخصوص شرح سے زیادہ قرض وہ بنک نہیں دے سکتا۔

ان سب اقدامات کے علاوہ دیوالیہ سے بچنے کیلیے موجودہ دور میں ایسیٹ بیکڈ سیکیورٹی کے ساتھ قرضے دیے جاتے ہیں۔ قرضہ دینے کیلیے ایک ایسی کم لیکویڈ چیز (جسے جلدی خرچ نہ کیا جا سکے) جیسے مکان وغیرہ سیکورٹی کے طور پر رکھی جاتی ہے۔ اس طریقے کو مارگیج بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے طریقوں کی وجہ سے عام طور پر بنکوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے سر پر کسی دیوالیہ نکلنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اس طرح بنک باقی سب کمپنیوں سے زیادہ طاقتور اور منافع بخش بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے ذہین لوگ نوکری کیلیے بنکوں کی طرف دلچسپی لیتے ہیں۔ بنکوں کی اس اجارہ داری کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے قیمتی لوگ جنہیں کسی اور اہم جگہ پر ایجادات جیسی اہم چیزیں کرنی چاہئیں وہ بھی زیادہ پیسے ملنے کی وجہ سے بنکوں میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ آپ نے بنکوں کے ناموں کے ساتھ “لمیٹڈ” لکھا ہوا بھی ضرور دیکھا ہوگا۔ دیوالیہ نکلنے کی صورت اس “لمیٹڈ” لفظ کی اصل اہمیت سامنے آتی ہے۔ نام کے ساتھ اس اضافے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں بنک مالکان صرف اپنی سرمایہ کاری کی رقم کھوئیں گے۔ اس کے علاوہ ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ بنک مالکان (شئیر ہولڈرز) اپنی کوئی اور جائیداد یا کمپنی وغیرہ بیچ کر صارفین کی رقم واپس کرنے کے پابند نہیں ہونگے اور یوں جس کے پیسے ڈوب گئے ڈوب گئے۔سرمایہ دارنہ نظام میں سٹاک مارکیٹ وہ جگہ ہے جہاں کمپنیوں کے شئیرز خریدے اور بیچے جا تے ہیں۔ ایسی تمام کمپنییاں جن کے شئیرز سٹاک مارکیٹ میں خریدے اور بیچے جائیں وہ پبلک کمپنیاں کہلاتی ہیں۔ کسی بھی پبلک کمپنی کی طرح پبلک بنکوں کے شئیرز بھی سٹاک مارکیٹ میں ہی بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں شئیرز کے علاوہ کمپنیاں بھی بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔

کمپنی خریدنے کا عام طور پر یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی فرد نے کمپنی کے تمام کے تمام شئیرز خرید لیے بلکہ اگر کوئی شخص ایک حد سے زیادہ شئیرز خریدے تو کمپنی کی پالیسیاں اس کی مرضی سے ہی بنتی ہیں اس لیے ایسے فرد کو کسی حد تک کمپنی کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اْس مخصوص حد سے زیادہ ایک کمپنی کے شئیرز خریدنے کو “ایکوزیشن” کہتے ہیں۔ کسی بھی سٹاک ایکسچینج میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اندازہ سٹاک مارکیٹ انڈیکس سے ہوتا ہے۔

سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں عام طور پر سٹاک ایکسچینج کی صرف چند ایک اہم کمپنیاں شامل ہوتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی سائز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اوسط اتار چڑھاؤ کا حساب لگایا جاتا ہے۔ انڈیکس میں پوانٹ سے مراد عام شئیرز کی قیمت میں کمی بیشی لی جاتی ہے۔ پاکستانی سٹاک ایکسچینج میں ہنڈرڈ انڈیکس کے ذریعے مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو جانچا جاتا ہے۔ انڈیکس کے ساتھ ہنڈرڈ کا مطلب یہ ہے کہ اس انڈیکس میں مارکیٹ کی صرف سو کمپنیاں شامل ہیں اور ان کمپنیوں کے اتار چڑھاؤ سے مارکیٹ کے مجموعی رجحان کو پرکھا جا رہا ہے۔