|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2019

اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو معدے کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد جب علاج کی غرض سے بی ایم سی اسپتال گئے تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کس حد تک بگڑ چکی ہے،غریب عوام کو صحت عامہ جو کہ کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو بہم پہنچائے،بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صحت اور تعلیم کے شعبے جس تیزی سے تنزلی اور کرپشن کا شکار ہیں دس بیس سال پہلے حالات ہرگز ایسے نہ تھے جیسے آج ہیں۔

اسپیکر موصوف کی سوشل میڈیا پر بات چیت اور پرنٹ میڈیا میں بیان کی مزید تفصیلات سامنے آئیں کہ بی ایم سی ہسپتال سمیت سول ہسپتال کی حالت کس قدر تباہ حال کہ بقول اسپیکر انہیں یہ حالات دیکھ کر از خود شرمندگی محسوس ہوئی۔ بی ایم سی ہسپتال میں رات کے اوقات میں نہ تو کوئی سینیئر ڈاکٹر موجود تھا اور نہ ہی کوئی سٹاف‘ ہسپتال کے باتھ رومز میں کاکروچوں کی بھر مار تھی، نلکوں کی ٹونٹیاں ٹوٹی ہوئی ہیں جنہیں ربڑ سے باندھا گیا تھا،رات جیسے تیسے گزری اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو اگلی صبح سول ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ہسپتال کی حالت قدرے بہتر تھی لیکن یہ سرکاری ہسپتال جو اس سے قبل بیس پچیس سال پہلے ایک بہترین ہسپتال کے طورپر جانا جاتا تھا آج اسکی حالت بھی انتہائی نا گفتہ بہ ہیہ

اسپیکرکے مطابق ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت اس وقت بہتر ہو سکتی ہے کہ ہم جیسے سرکاری عہدوں پر براجمان وی آئی پی شخصیات‘ ایم پی ایز صاحبان‘ سیکرٹری صاحبان اپنا اور اپنے فیملی کا علاج معالجہ سرکاری ہسپتالوں سے کرائیں گے تب جا کر ہمیں ان کی حالت زار کا علم ہوگا اور ہمارے کیے گئے اقدمات سے ان ہسپتالوں کی حالت تب جا کر بہتر ہوگی وگرنہ ایک دو اچانک دوروں سے یہ مسائل حل نہ ہوں گے جیسا کہ انہوں نے خود بھی ان ہسپتالوں کا بطور وزیراعلیٰ اچانک دورے کیے لیکن اس سے خاص نتائج سامنے نہیں آسکے۔

سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ کو جب بھی کسی اعلیٰ شخصیت کے دورے کا علم ہوتا ہے تو وہ فوری نوعیت کے اقدامات کرتے ہیں اور ان وارڈز کا دورہ کرایا جاتا ہے جہاں ڈرامائی انداز میں ”اچانک“ مریض داخل کرائے جاتے ہیں جو صاف ستھرے لباس میں ملتے ہیں انٹر ویو کرنے پر یہ ”خود ساختہ مریض“ انتظامیہ کی تعریف کے پل باندھتے ہیں اصل میں یہ مریض نہیں ہوتے بلکہ انتظامیہ یا ہسپتال کا عملہ ہوتا ہے جنہیں مریض بناکر بیڈ پر سلا یا جاتا ہے۔

دورے کے بعد سب کچھ ختم ہوجاتا ہے،تندرست عملہ جو کہ چند لمحہ پہلے مریض کے طورپر بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اب وہ ہسپتال سے باہر جاتا نظر آتا ہے، اس طرح کی ڈرامہ بازی کی خبریں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ایک سرکاری ہسپتال کے دورے پر نجی ٹی وی پر دکھایا گیا جہاں تمام جعلی مریض لٹائے گئے، ہسپتال کوخوبصورت دکھانے کے لئے کرایہ پر نرسریوں سے گملے لا کر رکھے گئے، وزیراعلیٰ کے جاتے ہی ان گملوں کو دوبارہ ٹرکوں پر لادتے ہوئے دکھایا گیا۔ مقصد ہماری سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ اس طرح کی ڈرامہ بازیاں کرکے اپنی اپنی نوکریاں تو بچا لیتی ہے لیکن ان کی توجہ بہتر علاج معالجے پر ہرگز نہیں ہوتی۔

سول ہسپتال میں ”کارڈیک وارڈ“ کو بنے دس پندرہ سال ہوچکے ہیں، اس کی حالت اس قدر دگر گوں ہے کہ الامان الحفیظ،یہاں جونئیر ڈاکٹر آپ کو ملیں گے سینیئر ڈاکٹروں کی تو ڈیوٹی ہی نہیں لگتی یہ ان کے شان کے خلاف تصور کی جاتی ہے کہ موصوف رات گئے سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی ادا کریں، اگر اس سینئر ڈاکٹر کو تلاش کیاجائے تو وہ کوئٹہ شہر کے کسی بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں ملے گا کیونکہ وہاں وہ بھاری فیس لیکر مریضوں کا معائنہ کرتاہے۔

آج کوئٹہ میں پارک نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ اس چھوٹے شہر میں 35سے 40پرائیویٹ ہسپتال کامیابی سے چل رہے ہیں جنہیں چلانے والے ہمارے ان سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر ہیں جن کے ہاتھوں سرکاری ہسپتال تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔یہ ہسپتال کم اور کھنڈرات زیادہ نظر آتے ہیں چند ایک لالچی ڈاکٹر اس قدر مشہور ہیں کہ وہ سہ پہر5بجے سے رات ڈیڑھ بجے تک پرائیویٹ ہسپتالوں میں لگ بھگ ڈیڑھ سو مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں، ان کی فیسیں ایک ہزار سے لیکر ڈیڑھ ہزار تک ہوتی ہیں اب آپ کو بخوبی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ ہمارے ان ڈاکٹر صاحبان نے اس مقدس پیشہ کو کس طرح کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے، ان کی اخلاقی گراوٹ کی حد یہ ہے کہ وہ مریض کو مریض نہیں بلکہ ”گاہک“ کے طورپر ڈیل کرتے ہیں۔

میں کراچی کے ایک سینیئر ڈاکٹر کی اس بات کا خود گواہ ہوں کہ اس نے جب اپنے ایک شاگرد ڈاکٹر کے بارے میں کوئٹہ کے مریض سے پوچھا تو مریض نے بتایا کہ آپ کا کوئٹہ میں موجود شاگرد ایک رات میں ڈیڑھ سو مریضوں کا معائنہ کرتا ہے تو اس کے استاد ڈاکٹر نے اس مریض کے ہاتھوں اپنے شاگرد ڈاکٹر کو یہ پیغام بھیجا کہ اسے کہو کہ وہ ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ کر ہیروئن فروخت کرے،اس میں بڑا پیسہ ہے۔ جب ہماری اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہو تو ہمارے سرکاری ہسپتال کس طرح بہتر سہولیات سے آراستہ ہوں گے۔

سول اسپتال کے کارڈیک وارڈ میں ڈاکٹروں کے پاس مرض کی تشخیص کے لئے stethoscopeاسٹیتھی سکوپ بھی نہیں دل کے مریض کو ڈاکٹر پہلی پرچی یہ پکڑا کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ اپناTroponin ٹیسٹ جناح روڈ کے پرائیویٹ کلینک سے کرکے دوبارہ آجائیں تاکہ مرض کے بارے میں مزید جانکاری ہو سکے۔ مقصد دل کا مریض ڈاکٹروں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو کر پہلے سول ہسپتال آجائے یہاں سے اسے پرچی دے کر جناح روڈ بھجوایا جائے،مقصد جب یہ ٹیسٹ پرائیویٹ کلینک پر موجودہیں تو اس سرکاری ہسپتال میں کیوں نہیں، یہ ایک اہم اور بیسک سوال ہے۔

اسی طرح ”اے سی جی“ مشین بھی اکلوتا ہے یعنی ایک عدد مشین ایمر جنسی وارڈ کے باہر ہے جہاں خواتین اور مرد مریضوں کا ایک ہی مرتبہ اے سی جی کروایا جارہا ہے اس میں جتنی دیر لگے یہ عملے کی ذمہ داری نہیں، فیمیل عملہ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، خواتین مریضوں کا اے سی جی بھی میل نرس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ مقصد یہ کہ پورا ہسپتال یا شعبہ کارڈیک تباہی کے دہانے پر پہنچادیا گیا ہے اگر وزیراعلیٰ موصوف جنہوں نے اس دورے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں انہوں نے فوری طورپر اپنی سرکاری ہسپتالوں کے مسائل معلوم کرنے کے لئے ایمر جنسی طورپر میٹنگ بھی کال کی ہے۔

اگر وزیراعلیٰ صاحب، اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے مطابق ان سرکاری ڈاکٹروں کو جو بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں اس بات کا پابند کریں کہ وہ بھی سی ایم ایچ کے طرز پر رات کو ان سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھ کر ایک مخصوص فیس لے کر عوام الناس کو بہتر علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کریں تو بخدا یہ سرکاری ہسپتال دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں،ان کی تباہ حالی کو بہتری کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔ سرکاری ڈاکٹر سی ایم ایچ کے ڈاکٹروں کے طرزپر مخصوص فیس لے کر یہ سب کچھ بہتر کر سکتے ہیں ورنہ ایک دو دوروں سے ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر نہیں ہوگی۔

اگر تمام ایم پی اے صاحبان بشمول بیوروکریٹس کے اوپر یہ پابندی لگا دی جائے کہ وہ اپنا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کرائیں گے تب جا کر ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت بالکل اسی طرح ہوگی جیسے آج سے تیس چالیس سال پہلے ہوا کرتی تھی جہاں شعبہ ای این ٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمود رضا صاحب‘ شعبہ ڈینٹل کے ڈاکٹر شاہ صاحب مرحوم ڈاکٹر شمس ترین اور دیگر کئی ڈاکٹر صاحبان کے نام ذہن میں آرہے ہیں کہ کس طرح ان کی بدولت سول ہسپتال میں بہترین علاج معالجہ کی سہولیات میسر تھیں،پرائیویٹ ہسپتال تو سرے سے موجود نہ تھے۔

ان کی سوچ بھی نہیں ہوتی تھی اور آج کی صورت حال کہ آج اسپیکر بلوچستان اسمبلی سمیت ہم سب کو شرمندگی ہورہی ہے، ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم نے تو اپنے پرائیویٹ کلینک اور پرائیویٹ ہسپتال آباد کر رکھے ہیں سرکاری ہسپتال کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے صرف لاوارث اور نادار مریضوں تک محدود کردیا ہے۔آج ہم ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ایک اچھا مسلمان‘ہم سے تو غیر مذہب کے لوگ اچھے ہیں جو انسانیت کی خدمت میں پوری دنیا میں اپنا اور اپنے اپنے ملکوں کا نام روشن کررہے ہیں جب کہ ہم اپنے معاشرے کے لیے ”کلنک کا ٹیکہ“ بن چکے ہیں۔کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں پینتیس سے چالیس کے قریب پرائیویٹ ہسپتالوں کاقیام ہمارے ماتھے پر کلنک ٹیکہ نہیں تو اورکیا ہے۔

بہر حال ہم اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے مشکور ہیں کہ انہوں نے سرکاری ہسپتال میں اپنا علاج کرکے، اپنی دکھ بھری داستان بیان کرکے وزیراعلیٰ جام کمال کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر حکومتی سطح پر جامع کوشش کی جائے تو ان ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ سے دست بستہ اپیل ہے کہ وہ ان سرکاری ہسپتالوں میں بھاری تنخواہیں لینے والے سینئر ڈاکٹروں کو سی ایم ایچ اور ایف سی ہسپتال کی طرح سرکاری ہسپتالوں میں رات کے اوقات میں بیٹھنے کا پابند بنائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ صوبے کے عوام کی نہ صرف بڑی خدمت ہوگی بلکہ ان کا عوام پر بڑا احسان ہوگا اور جب عوام ان کے لئے اللہ کے حضور دعا گوہوں گے تو یہ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے ان حکمرانوں کا کیا مقام ہوگا۔اللہ کرے کہ میری یہ تحریر ان حکمرانوں کے دل و دماغ میں اترے اوروہ ان مشوروں پر عمل کرکے لوگوں کی دعائیں لیں۔