|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2019

بلوچستان ایجوکیشن سسٹم مہم کا آغاز پاکستان کے انتہائی پسماندہ ضلع آواران میں شعبہ تعلیم کی بہتری کے لیے شہریوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ عبدالستار گوٹھ ایک ہزار نفوس پر مشتمل ضلع آواران کا ایک چھوٹا گاؤں ہے جس کی مقامی آبادی ذریعہ معاش کے لیے زراعت کے شعبے پر انحصار کرتی ہے، کراچی سے شمال مغرب کی جانب 3 سو کلومیٹرکے فاصلے پر واقع مذکورہ گاؤں کا واحد پرائمری سکول کئی سالوں سے بند تھا۔

علاقہ مکینوں کا ایک وفد جھاؤ سے کوئٹہ کا 12گھنٹوں پر مشتمل طویل سفر طے کرکے جب 4 اکتوبر کو سول سیکرٹریٹ کوئٹہ پہنچا تو چند گھنٹے انتظار کے بعد انہیں بتایا گیا کہ مشیر تعلیم اجلاس میں مصروف ہیں، اگلے روز وفد ملاقات کے لیے دوبارہ آیا اور یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا مگر ہر بار مشیر تعلیم کی اجلاسوں میں مصروفیات کے باعث ان سے ملاقات نہیں کر پائی۔ 19 دن کے طویل انتظار کے بعد عبدالستار گوٹھ سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکرز گروپ نے فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ پورے آواران میں بند سکولوں کو فعال کرانے کے لیے آگاہی مہم چلائیں گے۔

23 اکتوبر 2019 کومہم کا آغاز کرکے انہوں نے اپنی مہم کو ”بلوچستان ایجوکیشن سسٹم“ کا نام دیا جس کے تحت نوجوان رضاکاروں نے آواران میں سکولوں کی حالت زار سے متعلق آگاہی پھیلانا شروع کیا۔ صرف 2 دن بعد 25 اکتوبر کو گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول عبدالستار گوٹھ کا تعلیمی نظام بحال کردیا گیا یہ مہم کی ابتداء تھی۔2017 کی مردم شماری کے مطابق 1 لاکھ 21 ہزار 6 سو 80 نفوس پرمشتمل آواران پاکستان کا پسماندہ ضلع ہے جبکہ پاکستان ہیومن انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں اب بھی 0.173 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ 2017 کے مطابق بلوچستان میں جاری شورش کی وجہ سے یہ ضلع بری طرح متاثر ہوا۔ الف اعلان کی ضلعی تعلیمی رینکنگ رپورٹ کے مطابق آواران 1 سو 41 میں سے 1 سو 37 ویں نمبر پر ہے۔ آواران بلوچستان کے غربت کی عکاس ہے۔ بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کو اس پسماندہ ضلع میں ترقی کے خواہشمند شہریوں کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔

مہم کے آرگنائزر شبیررخشانی نے کہا کہ ان کے ضلع میں نوجوان نسل سکولوں کی بندش کے باعث بہتر تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں تاہم وہ نہیں چاہتے کہ آنے والی نسل بھی اس حق سے محروم ہوکر متاثر ہو۔ بند سکولوں کی وجہ سے شبیر رخشانی بھی اپنے بچپن میں بہترتعلیم حاصل نہیں کر پائے۔مہم کے رضاکاروں نے ضلع بھرمیں وسیع پیمانے پر سکولوں کا سروے شروع کیا انہوں نے سرکاری ویب سائٹ پر موجود ضلع میں فعال سکولوں سے متعلق ڈیٹا کو چیلنج کیا۔

اس مہم کے ذریعے 380 سکولوں کے مجموعے میں سے 1 سو 92 سکولوں کی نشاندہی کی جوکہ بند ہیں یہ ابتدائی سروے ہے سروے کا عمل جوں جوں آگے بڑھتا چلا جائے گا بندسکولوں کی تعداد میں اضافے کا امکان موجود رہے گا۔ انہوں نے بتایا ”سکولوں کی بندش کی وجہ سے اسکول جانے کی عمر کے 12 ہزار بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔“تنخواہوں کے علاوہ ضلع آواران کے شعبہ تعلیم میں مالی سال 2019/20 کے لیے 30.96 ملین روپے کی بجٹ مختص کی گئی۔

بلوچستان ایجوکیشن سسٹم مہم کے مطابق مذکورہ بجٹ میں 63 بند اسکولوں کے لیے 5.8 ملین روپے جاری کئے گئے تاہم حکومتی ریکارڈ کے مطابق یہ فعال ہیں۔ سروے کے مطابق 2.09 ملین روپے یونیفارم کی مد میں مختص کئے گئے ہیں جو کہ کبھی طلباء کو مہیانہیں کیے جاتے جب کہ 1.46 سپورٹس کیلئے مختص کئے گئے ہیں مگر سکول کھیل کے میدان سے محروم ہیں۔ اسی طرح 1.08 ملین روپے سائنس لیب کی مد میں رکھے گئے ہیں مگرضلع میں سائنسی لیب کسی بھی سکول میں وجود نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ مہم کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ علاقائی سطح پر قائم کمیونٹی سکول فعال ہیں اور وہاں عارضی بنیادوں پر تعینات اساتذہ ذمہ داری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں جب کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے مستقل بنیادوں پر تعینات اساتذہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے سے قاصر ہیں اور بہت سے اساتذہ نے آلٹرنیٹ ٹیچرز مہیا کیے ہیں جواپنی مرضی کے مطابق مہینے میں کم معاوضے پر چند دن کلاسیں لیتے ہیں۔

مسعودحلیم دسمبر 2016 میں ضلع آواران میں بطور ضلعی تعلیمی آفیسر (ای ڈی او) تعینات ہوئے، گریڈ 18 میں ہیں مگر انہیں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی گریڈ 19 پر تعینات کیا گیا۔ ان کے گاؤں حلیم آباد میں 10 اسکول ہیں۔ بلوچستان ایجوکیشن سسٹم سروے کے مطابق ان میں سے اکثرغیر فعال ہیں گزشتہ ماہ مہم کے آغاز کے بعد ان کاتبادلہ کیا گیا رخشانی کے مطابق ”عدالتی حکم نامے کے بعد جب جونیئرز سے اختیارات واپس لیے گئے تو مسعود حلیم کا تبادلہ اسی عدالتی حکم نامے کے بعد عمل میں آیا۔“

محمدانورجمالی نئے ضلعی تعلیمی آفیسر تعینات کئے گئے مہم سے متعلق جب ان کی رائے لی تو انہوں نے دی نیوز سنڈے کو بتایا ”میں نے ابھی تک چارج نہیں سنبھالا ہے اور اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ تعلیم پر چلنے والی مہم پر خیالات کا اظہار کر سکوں“۔ ڈپٹی کمشنر آواران حسین جان بلوچ نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ فنڈزمیں غبن کرنے والے آفیسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ 75 غیر حاضر اساتذہ کو برطرف کرنے کے لیے سیکریٹری سیکنڈری تعلیم کو خط ارسال کردیا ہے۔

حکومتی اقدامات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مہم کے آرگنائزر شبیررخشانی کہتے ہیں ”شعبہ تعلیم آواران میں ہم نے خامیوں کی نشاندہی کی، کوتاہیوں کوبے نقاب کیا، مگر حکومت تاحال اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ”ہمیں امید ہے کہ نیب بلوچستان، صوبائی محتسب اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ بدعنوانیوں کا نوٹس لیں گے۔“

مہم بلوچستان ایجوکیشن سسٹم آواران کے شعبہ تعلیم میں بہتری لانے کے لیے متحرک کردار ادا کررہا ہے تاہم ضلع آواران کا سیاسی قیادت منظرنامے سے بالکل غائب ہے۔

بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اور سابق نگران وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو آواران سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں انہوں نے صرف الیکشن کے وقت اپنے حلقے کادورہ کیا تھا یہی حالت ان کے سیاسی مخالف حریف جماعتوں کی بھی ہے۔ سیاسی نمائندگان کی عدم موجودگی کے باوجود بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے رضاکار پر عزم ہیں کہ وہ تعلیم کی بہتری کے لیے اپنی مہم کو جاری رکھیں گے۔

بشکریہ: دی نیوز