اللہ بھلا کرے اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو صاحب کا جنوں نے اپنے معدے میں معمولی تکلیف پر سی ایم ایچ جانے کی بجائے بی ایم سی اور سنڈیمن سول ہسپتال جانے کو ترجیح دی جہاں انہیں ان دو بڑے سرکاری ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ صورتحال کا ازخود نہ صرف سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں سوشل میڈیا پر اظہار خیال کا بھی موقع ملا۔وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کو بمعہ اپنی وزراء کی ٹیم سنڈیمن ہسپتال کے وی آئی پی روم میں زیر علاج اسپیکر موصوف کی عیادت کے لیے جانا پڑا، جہاں وزیراعلیٰ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ گورنر بلوچستان کے نام پر مختص وی آئی پی روم میں جہاں اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو زیر علاج رکھا گیا ہے۔
گیس ہیٹر صحیح طریقہ سے جل رہے تھے اور نہ ہی نلکوں میں گرم پانی آرہا تھا، جب ہسپتال انتظامیہ سے سوال کیا گیا تو ان کے حیلے بہانوں کے سلسلے شروع ہوئے، صفائی کی ابتر صورتحال کا پوچھا گیا تو یہ جھوٹ تراشا گیا کہ کرسمس کے تہوار کی وجہ سے صفائی عملہ چھٹی پر ہے وقتی طور پر انتظامی آفیسران نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اپنا دامن بچانے کو غنیمت جانا لیکن جب وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے انہیں ناقص کارکردگی پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا،اب ان کے چودہ طبق روشن ہونا شروع ہوگئے اور وہ اپنے آپ کو بچانے کیلئے ہاتھ، پاؤں مارنا شروع ہو گئے۔
بہر حال اس تمام صورتحال یعنی وزیراعلیٰ کے سخت ایکشن لینے اور کوئٹہ کی سطح پر موجود تمام بڑے ہسپتالوں کی حالت زار کی بہتری کیلئے حکومتی سطح پر ابتک جو قابل تحسین اقدامات اٹھائے جارہے ہیں عوام الناس میں اسے خاصی پذیرائی مل رہی ہے لوگ اس بات کا کریڈٹ خالصتاً اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کو دے رہے ہیں جنہوں نے اپنا علاج معالج سی ایم ایچ میں اورکوئٹہ شہرکے پرائیویٹ ہسپتالوں میں کرنے کی بجائے بی ایم سی اور سنڈیمن سول ہسپتال میں کرنے کا سوچا، جہاں دونوں ہسپتالوں کی حالت زار پر انہیں دلی افسوس ہوا کہ جہاں وی آئی پی شخصیات کو علاج معالج کی بنیادی سہولت میسر نہیں۔
وہاں غریبوں کو کیا سہولیات حاصل ہوں گی۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سرکاری ہسپتالوں کو ہمارے سینئر ڈاکٹروں نے صرف اور صرف نادار افراد کے لیے چھوڑ رکھا ہے جو یہ افراد پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ”مرتا کیا نہ کرتا“ کے مصداق ا نہیں اگر زندگی یا موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کے لیے ان سرکاری ہسپتالوں کے سوا کوئی چارہ کارنہیں۔میں نے اپنے گزشتہ کا لموں میں ان ہسپتالوں اور ان میں موجود قابل اور ینگ ڈاکٹر صاحبان کا نام لیکر ذکر کیا تھا کہ کس طرح یہاں پر علاج معالجہ کی سہولیات ملتی تھیں، تمام داخل مریضوں کو ادویات بھی ملتی تھیں آج صورتحال اس کے برعکس اور ناقابل تردید حد تک درہم برہم ہے۔ سنڈیمن ہسپتال اور بی ایم سی ہسپتال میں صفائی ستھرائی کا نام ونشان نہیں، ہسپتال کی گیلریوں میں بدبو اور تعفن پھیلاہوتاہے۔
مجال کہ دونوں ہسپتالوں کی انتظامیہ کو ذرا برابر خیال آتا ہو کہ ہسپتالوں میں جب صفائی ستھرائی نہ ہوگی تو مریض کس طرح شفایاب ہوں گے، گندگی میں تو جراثیم کی افزائش ہوتی ہے مریض تندرست ہونے کی بجائے مزید بیماریوں کا شکار ہوں گے لیکن ان ہسپتالوں کی ایڈمنٹریشن کی بلا سے انہیں تو صرف اپنی ایم ایس شپ چلانے سے غرض ہے وہ اپنی پوسٹنگ کتنے لاکھ اور کروڑ میں بولی لگا کر چکے ہوتے ہیں یہ باتیں اب چھپانے والی نہیں رہیں بلکہ زبان زد عام ہیں۔
مزید پریشانی وحیرانی والی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت صحت عامہ کے لیے بلوچستان بھر کے ہسپتالوں کے لیے 22ارب روپے کی خطر رقم مختص کر چکی ہے اس کے باوجود ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت دگرگوں ہے اس کی خالصتاً وجہ ہمارے سینئر ڈاکٹروں کی اپنی ڈیوٹیوں سے عدم دلچسپی اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایک رات میں ڈیڑھ سے پونے دو سو مریضوں سے بھاری فیس لینے پر توجہ ہے جس نے ان ہسپتالوں کو تباہ وبرباد کر دیاہے آج یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ جیسے چھوٹے سے شہر میں 35سے40پرائیوٹ ہسپتال کامیابی سے چل رہے ہیں ہر ہسپتال میں رات کے وقت مریضوں خصوصاً افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔
جیسے ان ہسپتالوں میں یا تو کوئی خیرات بانٹی جارہی ہے یا ڈاکٹروں نے فری معائنہ کرنے کا جمعہ بازار لگا رکھا ہے۔ یقین جانیے کہ کبھی کسی مقامی شخص کو کسی مجبوری میں ان پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانا پڑے تو اسے یہ حیرانی ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ تمام افراد کا تعلق افغانستان کے مختلف علاقوں سے ہے جو بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزے کے چمن کے راستے کوئٹہ تک آتے ہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں، پاسپورٹ اور ویزے سے انہیں غیر اعلانیہ طور پر مبرا رکھا گیا ہے جبکہ دیگر سرحدات،واہگہ اور پاک ایران بارڈر پر کسی چڑھیا کو پرمارنے کی بھی اجازت نہیں۔
بھارت تو دشمن ملک ہے ایران ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے لیکن سرحدات کے اصولوں اور قوانین کو وہ نظر انداز نہیں کرتا، ابتک کئی پاکستانی ایرانی سرحد میں گھسنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ پاک افغان سرحد پر ایک تماشہ لگا ہوا ہے پیسہ پھینکیے اور اندر داخل ہو جائیے کوئی پوچھ گچھ نہیں اس انسانی سمگل نے کوئٹہ سمیت ملک کے تمام شہروں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ہسپتالوں کی حالت زار ہمارے سامنے ہے کہ آج اسپیکر اور وزیراعلیٰ بلوچستان بھاگم بھاگ صورتحال کو بہتری کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ان ہسپتالوں کو چلانے کے لیے فنڈ کا کوئی مسئلہ لاحق نہیں ہوتا مس مینجمنٹ اور سینئر ڈاکٹروں کی عدم دلچسپی کے باعث ان ہسپتالوں کی حالت بگڑ چکی ہے جب سے بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے صورتحال مزید تباہ کن ہو چکی ہے تمام سینئر ڈاکٹر صاحبان میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کر دئیے گئے ہیں اب یہ سیکرٹری اور ڈی جی ہیلتھ سے منسلک نہیں رہے اس لیے وہ اپنی مرضی سے کام چلاتے ہیں انہیں ڈیوٹیوں پر لانا اور ڈیوٹی فل بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہ بھی بتایاجارہا ہے کہ حکومتی سطح پر ڈاکٹروں کی خالی آسامیاں عرصہ سے پر نہیں کی جارہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے میل اور فیمیل نرسوں کی بھی شدید قلت ہے یہ بھی ان بڑے سرکاری ہسپتالوں میں کم تعداد میں ہیں اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ دیگر صوبوں میں سروس سٹرکچر کو بہتر بناتے ہوئے ڈاکٹروں، میل اور فیمیل نرسوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا جبکہ بلوچستان میں تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے،اس صورتحال سے بھی مسائل جنم لے رہے ہیں فیمیل نرس کے لیے پہلے پنجاب کی خواتین آتی تھیں اب اس رحجان میں شدید کمی آئی ہے وجہ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونا بتایا جاتا ہے۔
ایک اور مسئلہ بلوچستان کی سطح پر کہ جہاں صحت کے شعبہ میں ٹیکنیکل پوسٹوں پر نان ٹیکنیکل اور سفارشی افراد کو بھرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان بڑے ہسپتالوں میں قیمتی مشینیں یا تو بند پڑی ہوئی ہیں یا پھر ان ٹرینڈ افراد کے ہاتھوں ناکارہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔بوگس بھرتیوں نے صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔بہرحال بقول ایک ڈاکٹر کے کہ ہماری مشکلات اور مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان پر محض ایک کالم نہیں بلکہ ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کے ڈاکٹروں کو صوبائی سطح پر بے پناہ مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اس پر حکومتی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی سنا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو اہے، اگر وزیراعلیٰ موصوف ڈاکٹروں کی تنظیموں سے الگ الگ نشستیں کر کے انہیں سنیں تو کافی حد تک مسائل اور مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے ارادے مضبوط ہوں تو کوئی مسئلے مسائل باقی نہیں رہتے،بات صرف مخلص اور ایماندار ہونے کی ہے۔وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی نے جو بیڑا اٹھا رکھا ہے توقع ہے کہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر اپنا نام تاریخ میں نہ صرف روشن کریں گے بلکہ ان ڈاکٹروں کے مسائل اور مشکلات حل کر کے ان کی دعائیں بھی لیں گے۔
سرکاری ہسپتالوں کو فنکشنل کر کے غریب عوام کے دلوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راج کریں گے، فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ بھی قابل تعریف ہے اس سے بھی ان ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے میں مدد ملے گی، متعلقہ سیکرٹری صاحبان پہلی بار ان ہسپتالوں کا دورہ کر کے مسائل معلوم کر رہے ہیں کاش ایسا پہلے ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔بہر حال میں اپنے کالم میں فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر شیریں خان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ موصوف نے از خود دلچسپی لیتے ہوئے ہسپتال کو ہر لحاظ سے قابل تعریف بنا دیا ہے جہاں بہتر علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ادویات کی فراہمی کوبھی یقینی بنایا گیا ہے۔
قابل تعریف اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب ایم ایس ہونے کے باوجود اپنے مریضوں کے وارڈز میں وزٹ کر کے ان سے علاج معالجے کے بارے میں معلومات لیتے ہوئے احکامات جاری کرتے ہیں، یہ انتہائی خدا ترس انسان ہیں جو اپنی دنیا اور آخرت کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ بات مجھے بی ایم سی کے ایک ڈاکٹر نے بتائی کہ ڈاکٹر شیریں خان نے ہسپتال میں ہسپتال ہی کے فنڈ سے ایک بہترین آئی سی یو بنایا ہے اس ہسپتال کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔وزیراعلیٰ موصوف کو اس ہسپتال کا بھی اچانک دورہ کر کے معلومات لینی چاہئیں تاکہ انہیں مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے مزید رہنمائی میسر آسکے۔ توقع ہے کہ وزیراعلیٰ عالیانی ہماری ان گزارشات پر فوری عملدرآمد کریں گے۔