محترمہ بینظیر بھٹو اپنی نو عمری میں ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت سنبھالی جب پاکستانی عوام شدید مشکلات، مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھی ان کی قیادت کو عوام نے دل کی گہرائیوں سے قبول کیا دلوں پر راج کرنے والی سندھ کی رانی بینظیر کو نہ صرف پاکستان کی پہلی عورت وزیراعظم تھیں بلکہ ساری دنیا انہیں ایک اعلیٰ سمجھ بوجھ رکھنے والی ایک منفرد لیڈر طور پر تسلیم کیا گیا انہیں بین الاقوامی طور پر جمہوریت کیلئے مثبت سوچ سے جدوجہد کرنے والی لیڈر تسلیم کیا گیا ان کی اس لازوال کاوش نے ان قوتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو کسی صورت میں بھی حقیقی جمہوریت کے پروان چڑھنے کے حق میں نہ تھے پھر ایک زبردست جنگ چھڑ گئی۔
بے نظیر کا جنم دنیا کے مانے ہوئے مشہور لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اعلیٰ خاندان میں ہوا ہاورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اپنے محبوب والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد وہ ایک مدبر سیاستدان کے طور پر ابھریں اور بعد میں اپنی اعلیٰ فہمی اور جمہوریت کی بقاء کیلئے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں 1988ء میں پہلی مرتبہ پاکستان کی منتخب وزیراعظم بنیں! وہ اپنی یادداشت کے طور پر ان لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں……. !
”پاکستان کی پہلی عورت وزیراعظم کے طور پر حلف لینے کے بعد پہلی مرتبہ جب میں نے وزیراعظم آفس میں قدم رکھا تو میں نے اپنے لباس میں ان رنگوں کا انتخاب کیا جو پاکستان پرچم میں موجود ہیں یعنی سبز اور سفید صدارتی محل میں بچھے ہوئے سرخ قالین پر قدم رکھتے ہوئے ہال پر سرسری نگاہ ڈالی ہال کو بہترین طورپر سجایا گیا تھا جیسے چاروں طرف خوبصورت پردوں سے آراستہ کیا گیا تھا…….ان لمحوں میں شدت سے یہ احساس ہوا کہ میرا اس مقام پر ہونا میری سیاسی جدوجہد کی وجہ سے اور ان بہت سی ہستیوں کی دی ہوئی قربانیوں کے سبب ممکن ہوا…..“