|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2019

یوں تو ہر فرد کی ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پر اس کا دم نکلتا ہے، مگر معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ برابری کی خواہش ایسی ہے جو ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ اسی خواہش کو پوری کرنے کیلیے ہم نے ماضی قریب میں روس اور فرانس میں انقلاب دیکھے۔ برابری کے بارے سرمایہ داروں کے مختلف مکاتب فکر والوں کے مختلف نظریات ہیں۔ آج کے دور میں فری مارکیٹ کے حامی لوگ سمجھتے ہیں کہ برابری کی خواہش سراسر ایک منفی چیز ہے اور اس کا انجام صرف غربت میں اضافے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔

اس نظریے کے حامل لوگوں کی رائے یہ ہے کہ دنیا کے وسائل محدود ہیں اس لیے اگر ایک شخص کے پاس بھینس ہے اور دوسرے کے پاس بھینس نہیں ہے تو ان دونوں اشخاص میں برابری صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ ایک بھینس بھی مر جائے۔ اس کے علاوہ کلاسیکل تھیوری والے بھی عدم توازن کو اچھا سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں جتنا زیادہ پیسہ سرمایہ دار کے پاس ہوگا پیداوار میں اتنا اضافہ ہوگا۔ اس سب کے باوجود تمام لوگ اس سوچ سے تو متفق ہیں کہ معیشت کیلیے بہتر نہ سہی مگر اخلاقی طور پر عدم مساوات کوئی قابل ستائش چیز نہیں ہے۔

اس کے برعکس دوسری طرف کچھ لوگوں کا نظریہ یہ بھی ہے کہ عدم مساوات اخلاقی طور پر منفی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ملک کی معیشت کیلیے بھی نقصان دہ ہے۔ اس نظریے کے حامل لوگ سمجھتے ہیں کہ معاشی عدم مساوات سے ملکوں میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور ان ممالک کا مستقبل غیر واضح اور غیر متوقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ دار کسی ایسی جگہ کو سرمایہ کاری کیلیے پسند نہیں کریں گے۔

اس نظریہ کے پیروکار مزید سمجھتے ہیں کہ اگر سرمایہ کاری ہو بھی جائے تو پیداوار میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ گروتھ نہ ہونے کی بہت سی وجوہات گنوائی جاتی ہیں جن میں سے دو وجوہات یہ ہیں۔ معاشی عدم مساوات کی وجہ سے صرف امیروں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں گے اور پھر وہی لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں گے۔ غریبوں کے بچے نہ پڑھنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے بہت سے انتہائی ذہین بچے ان پڑھ رہ کر مزدور بننے پر مجبور ہو جائیں۔ ترقی میں ہمیشہ سرمایہ کاری سے زیادہ اہم آئیڈیاز نے کردار ادا کیا اور اس طرح کے آئیڈیاز لازمی نہیں کہ امیروں کے بچوں کی ذہن سے پیدا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عدم مساوات کی وجہ سے مزدوروں کے پاس علاج معالجے کیلیے بھی پیسے نہیں ہونگے اور یوں ان کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔

اگر ہم ان فلسفوں کو چھوڑ کر تاریخ پر نظر ڈالیں تو کم از کم ایک چیز واضح نظر آتی ہے کہ ترقی کیلیے عدم مساوات ضروری نہیں ہے۔ ماضی میں ترقی کرنے والے ملکوں میں جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان اور امریکہ کی مثالیں موجود ہیں۔ ان سب ممالک میں سے سب سے زیادہ عدم مساوات امریکہ میں ہے مگر امریکہ کی ترقی کی رفتار متذکرہ بالا تمام معاشی طور پر متوازن ملکوں سے کم رہی۔ اس سے بے شک یہ تو ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ مساوات سے ہمیشہ ترقی ہوتی ہے کیونکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ معاشی مساوات کے باوجود بھی ترقی نہیں کر پا رہے مگر یہ مثالیں کم از کم یہ بات ثابت کرنے کیلیے کافی ہیں کہ مساوات کے ساتھ بھی ترقی ممکن ہے۔

مکمل برابری ایک غیر فطری چیز ہے اور یہ برابری بھی صرف غیر فطری طریقوں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس غیر فطری مکمل برابری سے مقابلے جیسی ایک انتہائی اہم چیز ختم ہوجاتی ہے جو ترقی کیلیے انتہائی اہم ہے۔ اس مکمل برابری سے معیشت کو کتنا نقصان ہوا اس کی مثالیں سوشلسٹس ملکوں کی تاریخ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ مساوات اور عدم مساوات کی درمیانی فطری حالت سب سے اہم نقطہ ہے۔

کورنیٹ کی مشہور تھیوری کے مطابق جب ملک ترقی کرتے ہیں تو سب سے پہلے عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر ترقی کے ساتھ ساتھ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ بھی درست نہیں ہے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ کی ترقی کو دیکھا جائے تو واقعتاً ترقی کے آغاز میں عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا مگر اس کے برعکس جنوبی کوریا میں ترقی کے ساتھ ساتھ عدم مساوات میں کمی ہوئی۔ اگر ہم ترقی کیلیے امریکہ اور کوریا کی معاشی پالیسیوں کا موازنہ کریں تو آسانی سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ دراصل عدم مساوات میں کمی یا بیشی کا تعلق انہی معاشی پالیسیوں سے ہے۔ امریکہ نے ترقی کرنے کیلیے جو فارمولا اپنایا اس کی سب سے اہم چیز امیروں کو ٹیکس کی چھوٹ تھی اور اس سے لامحالہ عدم مساوات میں اضافہ ہونا تھا۔ دوسری جانب جنوبی کوریا کی معاشی پالیسی کی اہم چیز زرعی اصلاحات تھیں۔ ترقی سے پہلے جنوبی کوریا کی جی ڈی پی کا تقریباً آدھا حصہ زراعت سے آتا تھا۔ زرعی اصلاحات میں انہوں نے ایک فرد کیلیے زرعی اراضی کی ایک حد مقرر کی اور یوں جاگیر داروں کو زمینیں بیچنی پڑیں۔ چھوٹے کسانوں اور چھوٹے دکانداروں کو تحفظ دینے کیلئے اقدامات کیے گئے۔ آج بھی جنوبی کوریا میں ہر دوسرے اتوار کو سارے بڑے مارٹس بند ہوتے ہیں تاکہ چھوٹے دکانداروں کی چیزیں بک سکیں۔

معاشی عدم مساوات کے علاوہ رنگ، نسل اور سکلز (مہارتوں) کی بنیاد پر بھی عدم مساوات پایا جاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان سب کو ماپا نہیں جا سکتا۔ معاشی عدم مساوات کو ماپنے کیلیے “جنی کوفیشنٹ” نامی پیمانے کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس کی ویلیو (قیمت) صفر سے ایک تک ہوتی ہے۔ ایک سے مراد یہ ہے کہ ملک میں انتہائی عدم مساوات ہے جبکہ صفر کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں مکمل مساوات ہے۔ وہ ممالک جن کی یہ ویلیو 0.50 سے زیادہ ہو وہ عدم مساوات والے ممالک شمار ہوتے ہیں۔ دنیا کے سب ممالک میں سے کسی بھی ملک میں اس جنی کوفیشینٹ کی ویلیو 0.75 سے زیادہ نہیں جبکہ دوسری طرف کہیں بھی 0.20 سے کم بھی نہیں۔ یورپی ممالک میں عموماً اس کی ویلیو سب سے کم جبکہ افریقی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اس کی ویلیو 0.33 ہے۔

عدم مساوات کا مطلب لازمی طور پر غربت نہیں ہے اس لیے غربت کو علیحدہ سے ماپا جاتا ہے۔ غربت کی سب سے زیادہ مانی جانے والی تعریف یہ ہے کہ ایسے لوگ غریب کہلاتے ہیں جن کو روٹی کپڑا اور مکان تک میسر نہ ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے وہاں غریب کی بجائے نسبتاً غریب وغیرہ جیسی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں اور دراصل اس میں اور عدم مساوات میں کوئی فرق نہیں۔ پاکستان میں غربت کی شرح چوبیس فیصد کے قریب ہے۔ کمائی کے لحاظ سے پاکستان میں تین فی صد لوگ اس حد تک غریب ہیں کہ وہ مہینے کے چھے ہزار بھی نہیں کماتے۔ دو ہزار پندرہ کے اعدادوشمار کے مطابق ستر فی صد آبادی کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار سے کم ہے۔

آج کل یہ نظریہ بہت عام ہے کہ غریب لوگ اپنی غربت کے خود ذمہ دار ہیں مگر دراصل یہ بات صرف جزوی طور پر درست ہے۔ اس کے علاوہ حالات بھی ذمے دار ہوتے ہیں۔ جیسے بچپن میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے ذہنی نشوونما میں کمی رہ جاتی ہے، والدین کی غربت کی وجہ سے تعلیم بھی حاصل نہیں کر پاتے اور غریب گھرانوں سے تعلق کی وجہ سے ان کے بڑے بڑے دفاتر میں ذاتی رابطے بھی نہیں ہوتے جو امیر گھرانوں کے بچوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر کو زندگی کی دوڑ کے آغاز میں ہی کافی سبقت حاصل ہوتی ہے۔