ملک بھر میں بے گھر افراد کے لئے کوئی بڑی اور قومی رہائشی اسکیم تا حال سامنے نہیں آئی ہے ۔ نہ ہی ساہو کار حکمرانوں میں ایسی اسکیم سے کوئی دلچسپی ہے ۔ رہائشی اسکیمیں تو بہت ہیں مگر وہ سب مخصوص مفادات کے لوگوں کے لئے ہیں، عوام الناس کے لئے نہیں ۔ اول تو وہ تمام رہائشی اسکیم جو مخصوص مفادات کے لوگوں کے لئے ہیں وہ سب کے سب پنجاب اور اسکے گردونواح میں ہیں ۔ دوسرے صوبوں خصوصاً بلوچستان میں نہیں ہیں ۔ کیو ڈی اے نے ایک آدھ اسکیم شروع کی ہے مگر وہ اتنی مہنگی ہے کہ جو عام اور غریب لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے ۔ عام آدمی مہنگی پلاٹ حاصل کرکے اس پر مکان تعمیر نہیں کر سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ اسکیم صرف کوئٹہ کے حدود میں مقید نہ ہو، دوسرے شہروں میں بھی اچھی اور سستی رہائشی اسکیمیں شروع کی جائیں تاکہ ضرورت مند غریبوں کو اچھی رہائش اور سستا مکان ملے ۔ ان کالموں میں ہم نے یہ مشورہ دیا تھا کہ تمام بڑے شہروں کے قرب و جوا رمیں نئی ٹاؤن شپ اسکیمیں شروع کی جائیں تاکہ لوگ اپنا ذاتی مکان بنا سکیں ۔ان رہائشی اسکیموں میں حکومت مکمل بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرے جو جدیدشہر کی تمام ضروریات پوری کرے ۔ ان اسکیموں میں صاف پانی کی فراہمی ‘ نکاسی آب ‘ بجلی ‘ گیس‘ سڑکیں کشادہ ‘ زیر زمین پارکنگ کی سہولیات ‘ تعلیمی مراکز ‘ تجارتی مراکز ‘ کیمونٹی سینٹر‘ بڑی تعداد میں کھیل کے میدان سب حکومت بنائے ۔ ویسے بلوچستان سے متعلق یہ مشہورہے کہ یہ ایک بہت بڑی کچی آبادی ہے ۔اس میں منصوبہ بندی کے تحت ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہمیں یاد نہیں ہے کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے کسی شہر میں ٹاؤن پلاننگ کا کوئی نظریہ ہے ۔ نہ ہی کوئی شخص مکان کی تعمیر کیلئے اجازت حاصل کر سکتا ہے۔ قانونی اجازت نامے حاصل کرنا نا ممکن ہے ۔ اس لئے مجاز افسر کو چند روپے پکڑائیں اور غیر قانونی تعمیرات شروع کردیں ۔ با اثر لوگ سرکاری زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ رشوت دے کر اپنے نام کروالیتے ہیں ۔ جب حکومت کو اس زمین کی ضرورت ہوتی ہے تو حکومت سے کروڑوں روپے طلب کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے گوادر اور تربت کے ائیر پورٹس آج دن تک تعمیر نہ ہوسکے ۔ بہر حال یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کو اپنا مکان تعمیر کرنے میں مدد کرے ۔ بلوچستان کے تمام بڑے بڑے شہروں کے میں یہ اسکیم شروع کی جائے ۔ تمام ترقیاتی کام کے اخراجات حکومت برداشت کرے اور زمین بھی حکومت مفت یا واجبی قیمت پر لوگوں کو فراہم کرے تاکہ لوگ اپنا چھوٹا مکان خود تعمیر کریں ۔ حکومت مختلف مراحل میں اس اسکیم پر عمل درآمد کرسکتی ہے ہر ڈویژن سے ایک ایک شہر ہر سال لیے جائیں ۔ سالانہ چھ شہروں کے قریب جدید ٹاؤن شپ صرف عام اور غریب لوگوں کیلئے تعمیر کیے جائیں۔ کم سے کم بلوچستان سے متعلق ایک بہت بڑی کچی آبادی کا تاثر ختم ہوسکے ۔