|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2014

آج کے لبرل اور متحمل مزاج برطانیہ پر نسل پرستی اور اسلام دشمنی کا الزام ہر اس شخص کو دھچکا پہنچاتا ہے جو عوامی خدمات میں کیرئیر بنانے کا خواہشمند ہو، سیاسی درستی کے ماحول میں لوگ اکثر تارکین وطن کے بارے میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں جن کے اقدامات مقامی ثقافت اور سماجی اقدار سے مختلف ہوتے ہیں۔ جب برمنگھم سٹی کونسل کو سرکاری اسکولوں میں جارحیت پسند اسلامی عناصر کے بڑھتے کنٹرول کی رپورٹس موصول ہونا شروع ہوئیں تو اس نے اسلاموفوبیا کے الزامات کے ڈر اور شہر کے مسلم اکثریتی علاقوں سے ہم آہنگی کے پیش نظر اسے نظرانداز کردیا۔ حکومت اس وقت تک اقدام کرنے پر تیار نہیں ہوئی جب تک گزشتہ سال خودساختہ ٹروجن ہارس نامی خط منظرعام پر نہیں آگیا، مائیکل گوی جو ریفارمنگ ایجوکیشن سیکرٹری تھے، نے اسکول ریگولیٹر آف سٹیڈ اور ریٹائرڈ پولیس افسر پیٹر کلارک کو اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا، اس کے ساتھ ساتھ برمنھگم سٹی کونسل نے آئن کرشیو سے اس معاملے پر اپنی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ تحقیقات ابھی جاری ہے، مگر میڈیا میں کافی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں، جبکہ متعدد متاثرہ اسکولوں کے مسلم منتظمین نے اس کے خلاف احجاج کرتے ہوئے کنزرویٹو کی اتحادی حکومت پر مسلم مخالف پروپگینڈہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔آف سٹیڈ کی رپورٹ میں تعلیمی اور انتطامی معاملات پر توجہ دی گئی ہے اور کچھ اسکولوں کو کلئیر قرار دیا گیا ہے، جبکہ دیگر کے بارے میں خصوصی اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ دوسری جانب کلارک رپورٹ زیادہ تباہ کن ہے، دیگر امور کے ساتھ اس میں متاثرہ اسکولوں کے منتظمین پر ایسے اساتذہ اور پرنسپلز کے ساتھ بدسلوکی اور توہین کا الزام عائد کیا گیا ہے جو تعاون نہیں کرتے تھے، اس کے علاوہ متعدد کو ملازمتیں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور عربی و اردو زبان میں تعلیم دینے، عقائد کو حقائق بنا کر پڑھانے، سیکیولر ازم کو نقصان پہنچانے، نسل پرستی کو فروغ دینے اور کچھ طالبعلموں سے اساتذہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی ایسی عادات کی رپورٹ کروانا جو قدامت پسند مسلمانوں کی نظر میں ناقابل برداشت ہو، جیسے الزامات لگائے گئے۔ کلارک نے منتظمین پر الزام لگایا کہ وہ جارحانہ، علیحدگی پسندانہ اور پرتعصب ایجنڈے کو ایک سیکیولر جمہوریت میں بزور قوت نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کلارک نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے ” یہ سیکیولر سرکاری اسکولوں کو خصوصی مذہبی اسکولوں میں تبدیل کرنے کی جان بوجھ کر کی گئی کوشش لگتی ہے، اس بات کے واضح شواہد موجود ہین کہ نوجوان افراد میں سنی اسلام کے سخت گیر موقف کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی تھی جس سے مستقبل میں انتہاپسندی پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے”۔ ہم پاکستانیوں کے یے اس میں کچھ نیا نہیں، ہمارے اسکولوں میں دہائیوں سے اس طریقے سے بچوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ ہمارے اندر تعصب اور انتہاپسندی کی شکل میں نکلا اور اب یہ عوامی امن کو منتشر کرنے لگا ہے، مگر برطانیہ میں یہ طریقہ کار ناقابل برداشت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں اسی وجہ سے مسلم اکثریتی علاقوں کے اسکولوں میں زیادہ نگرانی کی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ اس وقت بھی مسلم تارکین وطن کی روک تھام کے لیے ایک گرما گرم بحث جاری ہے، اسلام کے بارے میں منفی تصور زیادہ گہرا ہوگیا ہے، جبکہ مکمل لباس پہننے والی خواتین اور داڑھی رکھنے والے مردوں سے نفرت کا اظہار بیشتر برطانوی شہریوں میں عام ہوتا جارہا ہے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ کلارک رپورٹ اس دھیمی آگ پر پٹرول چھڑکنے والا کام کرے گی۔ دونوں رپورٹس میں یہ بات تو واضح کردی گئی ہے کہ برمنھگم سٹی کونسل اسکولوں کو ریگولیٹ کرنے اور مسلم اکثریتی علاقے میں سامنے آنے والی شکایات پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، منتظمین نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکولوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ دہائیوں سے برطانوی شہری لاکھوں تارکین وطن کے رواج، زبانوں اور ثقافتوں کو تسلیم کرتے آئے ہیں، سیاسی یا معاشی وجوہات کی بناءپر برطانیہ آنے والے ان افراد نے معیشت، سماجی خدمات اور آرٹ وغیرہ کے شعبوں میں بہت کچھ کیا، مگر موجودہ اقتصادی کساد بازاری اور بیروزگاری کے دور میں نئے آنے والوں کو خوشدلی سے قبول کرنا اب آسان نہیں رہا۔ امیگریشن کمیونٹی کو جس چیز کی سب سے آخر میں ضرورت ہوسکتی ہے وہ ایسا ماحول ہے جہاں وہ اپنے بچوں کو مناسب طریقے سے تعلیم نہ دلاسکیں۔