کانگو ایک جان لیوا بیماری ہے جو کسی بھی شخص کو لاحق ہونے کے بعد فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔بلوچستان میں مال مویشیوں کے دیگر صوبوں اورممالک سے درآمد کے باعث عید قربان کے دنوں میں کانگو کے پھیلنے کے خدشات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔صابر لورالائی کا رہائشی ہے ایک سال قبل کانگو وائرس نے صابر کے سر سے ان کے والد کا سایہ چھینا صابر کے مطابق ان کے والد شاہجہان گھر کے مال مویشیوں کیلئے روزانہ چارہ لانے کیلئے قریبی باغ جاتے تھے۔ صابر کے مطابق وہ ایک دن باغ کے مالک نے میرے والد سے ایک بیمار بکری ذبح کروائی،اس کے دو دن بعد میرے والد کو بخار کے ساتھ قے آنے لگی ہم نے والد کوعلاج کی غرض کیلئے لو رالائی سی ایم ایچ ہسپتال لئے گئے۔
صابر نے بتایا کہ ہمیں والد کو کوئٹہ منتقل ہونے کو کہا جب ہم کوئٹہ آئے تو پہلے ہم نے والد کو کوئٹہ کے سنڈیمن ہسپتال میں داخل کیا۔صابر کے مطابق ایک دن کے بعد ہمیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ میرے والد کو کانگو کا مرض لاحق ہوا ہے اس کے بعد انہوں نے ہمیں فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کے کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کے وارڈ میں بجھوایا میرے والد چند دن تک اسی وارڈ میں زیرعلاج رہے لیکن مرض بڑھ جانے کی وجہ سے میرے والد وفات پاگئے۔
کانگو وائرس ہے کیا؟
معلومات: لائیو اسٹاک کے ماہرین کے مطابق کریمین کانگو ہیمریجک فیور (کانگووائرس) کا جرثومہ جو کہ نائرو وائرس اور بنیا ویرائیڈ وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے نائروائرس گروپ میں 32اقسام کے جرثومے شامل ہیں جو انسانوں میں چچڑ کے ذریعے بیماریاں پھیلاتے ہیں، جن میں کریمین کانگو ہیمریجک فیور ایک شدید اور اہم بیماری ہے یاد رہے چیچڑ جانوروں میں نشوونما پاتی ہے ان چیچڑیوں میں ایک قسم ہائیلوما اس قسم کے وائرس کی پرورش کیلئے نہایت موزوں تصور کی جاتی ہے جب یہ بالغ ہائیلوما چیچڑ جانوروں یا انسانوں کو کاٹتی ہے تو کریمین کانگو ہیمریجک فیور پھیلانے کا سبب بن جاتی ہے۔
انسانوں میں یہ جرثومہ متاثرہ جانوروں کے خون متاثرہ بافتوں (گوشت) یا جرثومہ سے متاثرہ ہیالوما چیچڑیوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے یہ بیماری مال مویشیوں پالنے والے افراد میں زیادہ ہوسکتی ہے، انسان 4 طریقوں سے اس وائرس سے متاثر ہوسکتا ہے، کسی بھی وائرس زدہ جانور کو ذبح اور صاف کرنے کے دوران اگر خون کسی زخم کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو،۔وائرس رکھنے والے مخصوص چیچڑ جب انسان کو کاٹ لیں، کسی بھی کانگو وائرس سے متاثرہ مریض کے خون،قے، تھوک، پاخانے اور پیشاب کو ہاتھ لگانے یا ہاتھ سے صاف کرنے سے اور اسی طرح کسی متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج، ڈرپ سیٹ، جراحی کے آلات اور بلیڈ کو دوبارہ صحت مند افراد کے استعمال سے یہ مریض انسانوں کو لاحق ہوسکتاہے۔
کانگو وائرس کے آثار سب سے پہلے1944 روس کے کریما نامی علاقے میں دریافت ہوئی، اس کے بعد 1954 میں براعظم افریقہ کے ملک کانگو میں اس سے کافی اموات ہوئی تھیں اس بنا پر اس بیماری کو کریمین کانگو ہیمریجک فیور کا نام دیا گیا۔پاکستان میں اس بیماری کو پہلی مرتبہ 1974میں سنٹرل گورنمنٹ ہسپتال راولپنڈی میں ریکارڈ کیا گیا، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 1974 سے گزشتہ سال تک پاکستان میں کانگو سے تقریباََ 38 اموات واقع ہوئی ہیں، بلوچستان میں کانگو وائرس کا پہلا کیس نوے کی دہائی کے آخر میں ریکارڈ ہوا ہے بلوچستان میں کانگو وائرس کے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں؟
انچارج شعبہ کانگو وائرس فاطمہ جناح ہسپتال ڈاکٹر شمس دوتانی سمجھتے ہیں کہ کانگو پر قابو پانا ممکن ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کے باریمیں آگاہی ہو اور منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کیے جائیں۔
ڈاکٹر شمس کے مطابق:کانگو وائرس کی سبب بننے والے چیچڑوں کو تلف کرنے کیلئے اسپرے لازمی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کا لائیواسٹاک کا محکمہ اس میں غفلت برت رہا ہے ڈاکٹر شمس کے بقول:کانگو وائر سے بچاؤ کیلئے شاذ و نادر کچھ علاقوں میں اسپرے کیا جاتا ہے اور وہ اسپرے بھی معیاری نہیں ہوتااس کا باقاعدہ ایک میکنزم ہے لائیواسٹاک اس میکنزم کی پابندی اور برائے نام اسپرے کروایا جاتا ہے انتظامیہ یہ اسپریصرف صوبے کے داخلی راستوں پر کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شمس کے مطابق چونکہ بلوچستان میں افغانستان سے زیادہ مال مویشی پہاڑی راستوں سے پیدل داخل ہوتے ہیں اور وہ جانور منڈیوں تک بنا اسپرے کیے پہنچ جاتے ہیں جو کانگو وائرس پھیلاؤ کا اہم سبب ہیں، دوسرا اہم سبب بلوچستان کے ہر گلی کوچے میں مذبحہ خانے ہے جہاں حفاظتی تدابیر کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے اس معاملے میں میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرکاری طور پر مذبحہ خانے قائم کریں اور ان مذبحہ خانوں میں آڈر پراحتیاطی تدابیرکے ساتھ مویشیوں کو ذبح کرے
چیف ویٹرنری آفیسر میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ ڈاکٹر بشیر احمد کاکڑ کے مطابق کانگو وائرس واقعتاً ایک مہلک بیماری ہے اور ہم اس کے نقصان اور اپنی ذمہ داریوں سے آگا ہ ہیں۔ اور ہم اپنی دائرہ کار میں رہ کر اس کی روک تھام کے لیے دن رات کام بھی کررہیہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ شہر میں موجود نجی مذبح خانوں کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کے دائرہ میں لائیں۔
ڈاکٹر بشیر احمد کاکڑ نے بتایا کہ اس وقت کوئٹہ شہر میں 1500کے قریب مذبح خانے ہیں جن میں چارسوپچاس میٹروپولیٹن کے پاس رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی 1050مذبح خانے غیر قانونی ہیں، ان مذبح خانوں کے قصائیوں کو اس سلسلے میں آگاہی نہیں ہوتی کہ کونسا جانور صحت مند ہے اور کونسا جانوربیمارہے۔میں چالان بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر احمد کے مطابق اس حوالے سے ہم نے شہر کے مختلف علاقوں میں قائم غیر قانونی مذبح خانوں کو نوٹس جاری کردیا ہے اور انہیں مجسٹریٹ کی موجودگی۔
انہوں نے بتایاکہ اس حوالے سے قصائیوں کاآگاہ کیا گیا ہے کہ کوئٹہ میں مشرقی بائی پاس پر واقع سرکاری مذبحہ خانہ موجود ہے جہاں ڈاکٹروں کی موجودگی میں جانور ذبج کئے جاتے ہیں اس طرح لوگ خصوصاً قصائی کانگو کی بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بشیر احمد کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن میں قصائیوں کو باقاعدہ رجسٹرڈ کیا جاتا۔
دوسری جانب محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوئٹہ ڈاکٹر موسیٰ جان مندوخیل سمجھتے ہیں کہ کانگو وائرس کی روک تھام کیلئے ان کا محکمہ تمام وسائل بروئے کار لار ہا ہے ڈاکٹر موسیٰ جان مندوخیل کے مطابق عید بقر سے 15 دن پہلے ہم ٹیمیں تشکیل دیتے ہیں وہ انٹری پوائنٹ اور مال مویشیوں کی منڈیوں میں کانگو وائر سے بچاو کا اسپرے کرتے ہیں۔
ڈاکٹر موسیٰ جان مندوخیل نے بتایا کہ ہم نے کوئٹہ کے ویٹرنری گھوڑا ہسپتال میں ایمرجنسی سینٹر بھی قائم کیا ہے جہاں اسپرے کی سہولت دستیاب ہے اور عید قربان کے موقع پر موبائل ٹیمیں اسپرے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر موسیٰ کے بقول، جانوروں کی کانگو وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ویکسینشین بھی کی جاتی ہے، ہم گزشتہ عید قربان میں ساڑھے 3لاکھ مال مویشیوں پر اسپرے کیا، اس کے علاوہ ہم ماہانہ بنیادوں پر کانگو سے بچاؤ کیلئے مہم چلاتے ہیں۔
ڈاکٹر موسیٰ کے مطابق مہم کے دوران سیمینار،ٹریننگ اور مالداروں سے ملاقات کرکے انہیں آگاہی دی جاتی ہے محکمہ لائیو اسٹاک کے مطابق کانگو وائرس سے بچاؤ کے لیے اسپرے، ڈپننگ اور آگاہی کے حوالے سے بلوچستان کے12 اضلاع میں ان کا منصوبہ چل رہا ہے جن میں ڑوب، موسیٰ خیل ِ، قلعہ، عبداللہ، شیرانی، لورالائی، چاغی اور دیگر اضلاع شامل ہے۔
کانگو وارڈ کی صورتحال
فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد صادق بلوچ تسلیم کرتے ہیں کہ کانگو کا وارڈ ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق نہیں ہے ہمارے ہاں صرف سات بیڈ پر مشتمل آئسولیشن وارڈہے جس میں ڈینگی کے مریضوں کا علاج بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محمد صادق بلوچ کے مطابق عالمی ادارہ برائے صحت کے اصولوں کے مطابق کانگو وارڈ وائرس کیلئے مختص وارڈ کے تین اصول ہوتے ہیں پہلے مریض کو دیکھا جاتا ہے، پھر اس کی جانچ ہوتی ہے اور آخر میں اس کو داخل کیا جاتا ہے ڈاکٹر صادق کے بقول:یہاں سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہم مریض کو براہ راست داخل کرتے ہیں یہی وجہ ہے ہم صحت کے عالمی پروٹوکول کو فالو نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے وارڈ میں موجود دیگر افراد کو کانگو وائرس لگنے کے 80فیصد خدشات موجود رہتے ہیں۔
ڈاکٹر صادق نے بتایا کہ احتیاط کے طور ہم مریض کی تیماداری کیلئے آنے والوں افراد کو وارڈ میں نہیں چھوڑتے ہمارا عملہ حفاظتی آلات پہن کر وارڈ میں ذمہ داریاں نبھاتے ہیں اگر وارڈ عالمی ادارہ صحت کے اصولوں کے مطابق ہو تو پھر کوئی خطرہ نہیں اس کیلئے ہم نے بارہا حکومت سے درخواست کی لیکن تاحال ہماری درخواست پر عمل درآمد نہیں ہوا ڈاکٹر محمدصادق بلوچ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کیلئے ایک وارڈ کافی نہیں ہے اگر بلوچستان کے ہر ضلع میں ممکن نہیں ہے تو کم از کم ہر ڈویڑنل ہیڈ کوارٹر کے ہسپتال میں کانگو وائرس کیلئے وارڈ مختص کی جائے۔
دوسری جانب محکمہ صحت کے حکام کا دعویٰ کہ حکومت کانگو وائرس کی روک تھام کیلئے کم وسائل کے باوجود بہتر کام کرکے اس کی پھیلاؤ کسی حد تک روک دیا ہے محکمہ صحت بلوچستان کے ٹیکنیکل آفیسر ڈاکٹر احسان احمد سمجھتے ہیں کہ کانگو وائرس کے حوالے سے بلوچستان کا موازنہ ہمسایہ ملک کیساتھ مناسب نہیں ہے ڈاکٹر احسان احمد کے مطابق سال 2019 میں بلوچستان مں ہ کانگو کے چوبیس تصدیق شدہ کیسزسامنے آئے ہیں جن میں سے چھ مریض ہلاک ہوگئے زیادہ تر کیسز کوئٹہ اور اس کے بعد پشین اور دیگر علاقوں سے آئے اور ہمارے چار کیسز افغانستان سے ہیں ڈاکٹر احسان احمد کا کہنا تھا کہ افغانستان کا موازنہ کرنا عجب ہوگا۔
کیونکہ افغانستان کے جتنے بھی کیسز ہیں وہ ہمارے پاس آتے ہیں ہمارے پاس جدید لابسٹری ہے وہاں ایسا کوئی نظام نہیں ہے اور نہ نگرانی کا کوئی موثر نظام ہے جس کی بدولت کانگو وائرس کے کیسز سامنے آئے۔
ڈاکٹر احسان کے مطابق ہم نے کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ باہمی رابطے کا نظام قائم ہو تاکہ ہم کانگو وائرس کے روک تھام کو ممکن بناسکیں چونکہ کانگو وائرس کے پھیلاؤمیں مال مویشیو ں کا بڑا کردار ہے اور افغانستان سے بڑی تعداد میں مال مویشی بلوچستان میں روزانہ کی بنا د پر داخل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان احمد کے مطابق باوجود اس کے کہ کام کا بوجھ زیادہ ہے ہم نے اور بھی کم کرنا ہے اس کیلئے سہولیات درکار ہے اور ہم نے ایک ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا ہے تب جاکر ہم کانگو وائرس پر قابو پاسکتے ہیں۔
ڈائریکٹر ملیریا اور وی بی ڈی کنٹرول پروگرام کے صوبائی سربراہ ڈاکٹر خالد الرحمان قمبرانی کا ماننا ہے کہ کانگو وائرس کیلئے مخصوص بجٹ کا نہ ہونا اس کی مکمل روک تھام میں رکاوٹ ہے ڈاکٹر خالد الرحمان قمبرانی کے مطابق کوئٹہ کے فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال میں کانگو وائرس کے لیے ا لگ آئسولیشن وارڈ تو بنا دیا گیا لیکن وہ مطلوبہ معاٹر کے مطابق نہیں ہے نہ ہی اس میں وہ تمام مشینری او رسہولیات میسر ہیں جس کی کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کیلئے ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خالدالرحمان کے بقول،دوسری اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم رکاوٹ کانگو وائرس کیلئے کوئی مخصوص بجٹ کا نہ ہونا ہے۔ ڈاکٹر خالد الرحمان قمبرانی کے بقول ہم نے محکمہ لاؤی اسٹاک کے ساتھ کانگو وائرس کے روک تھام کیلئے مختلف مگزن کئے تاکہ ہمیں علم ہو کہ وہ کس طرح کام کرتے ہیں ڈاکٹر خالدالرحمان کے مطابق لیکن اب تک ہمں ہ اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ چچڑوں کو تلف کرنے کیلئے کس طرح کے اسپرے استعمال کرتے ہیں۔
گوکہ سب کا ماننا ہے کہ کانگو ایک مہلک اور جان لیوا مرض ہے جس کا وائرس فوری حملہ کرتا ہے اور بروقت علاج اور تشخیص نہ ہونے پر متاثرہ فرد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے اس کے باوجود اس کے روک تھام میں مطلوبہ فنڈز اور متعلقہ محکموں کی غفلت سے اس پر قابونہیں پایا جاسکا۔