استنبول : شام اور غزہ کے معاملے پر انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان تناﺅ بڑھنے لگا ہے اور ترک وزیراعظم نے امریکی صدر باراک اوبامہ سے ٹیلیفون پر بات چیت ختم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ترکی جو شامی صدر بشار الاسد کا شدید مخالف اور غزہ کی حکمران جماعت حماس کا پرزور حامی ہے، کو اس وقت دھوکے کا احساس ہوا تھا جب امریکہ نے گزشتہ سال ستمبر میں دمشق کے خلاف فوجی کارروائی سے منہ موڑ لیا تھا۔
ترک وزیراعظم نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا “ماضی میں، میں براہ راست باراک اوبامہ کو فون کرتا تھا مگر چونکہ ہمیں شام میں نتائج حاصل نہیں ہوسکے اس لئے اب ہمارے وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں”۔
انھوں نے کہا” اب میں امریکی نائب صدر جو بائیڈن سے بات کرتا ہوں اور وہ مجھے فون کرتے ہیں”۔
انھوں نے مزید کہا کہ مجھے اس طریقہ کار میں انصاف کی توقع تھی مگر میں نے انصاف کے چیمپئن بننے والوں کے ایسے ردعمل کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
امریکی صدر اور ترک وزیراعظم کے درمیان آخری بار ٹیلیفون پر بات چیت بیس فروری کو اس وقت ہوئی تھی جس کے بعد وائٹ ہاﺅس نے ایک بیان جاری کرکے کہا تھا کہ رجب طیب اردگان نے گفتگو کی نوعیت کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔
فلسطینی مسئلے کے حل کے پروز حامی ترک وزیراعظم نے حال ہی میں غزہ پٹی پر اسرائیلی جارحیت پر واشنگٹن کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
اردگان نے الزام لگایا تھا کہ صہیونی ریاست سرکاری دہشتگردی اور فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے اور انھوں نے امریکہ پر اسرائیل کے نامناسب طریقہ کار کی حمایت کا الزام عائد کیا تھا۔
خیال رہے کہ ترک وزیراعظم دس اگست کو ملک کے صدارتی انتخابات میں اپنی جماعت کی جانب سے حصہ لے رہے ہیں اور ان کی کامیابی کا قوی امکان ہے۔