|

وقتِ اشاعت :   January 14 – 2020

دنیا بھر کے ساحل سمندر اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہیں جہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر موجود ہوتا ہے مگر پاکستان کا ساحل سمندری آلودگی کی وجہ سے غلاظت اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں دوسرے ممالک سے آنے والے سیاح تو دور کی بات ہے اب خود مقامی افراد بھی ساحل سمندر کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ہماری زمین جس میں 75 فیصد حصے پر پانی موجود ہے اور کم و بیش تین ارب انسان سمندروں، دریاؤں سمیت مختلف آبی ذخائر سے خوراک حاصل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ موسموں کا تغیر، آب و ہوا اور درجہ حرارت میں تبدیلی کا انحصار بھی سمندر پر ہی ہوتا ہے۔

لہٰذا حضرت انسان اور کرہئ ارض کی بقاء کیلئے سمندر کا اندرونی ماحول صاف اور برقرار رکھنا ناگزیر ہے مگر انسان خود ہی اپنے اس خزانے کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے سمندری آلودگی کوئی محدود یا انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلے کا روپ دھار چکی ہے۔پاکستان کا ساحل سمندر تقریباً1,146 کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جو کچھ عرصے پہلے تک تفریح کیلئے آنے والوں کیلئے ایک ایسا بے حد خوبصورت مقام ہوا کرتی تھی جہاں دور دور سے لوگ صرف کراچی کے ساحل سمندر پر ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے کیلئے آتے تھے۔

مگر اب یہ سمند ری آلودگی کی وجہ سے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستان میں سمندری آلودگی ایک نہایت سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے جو نہ صرف آبی حیاتیات اور سمندری ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ انسانی صحت اور زندگی کے مختلف شعبہ جات پر بھی برے اثرات مرتب کر رہی ہے۔سمندری آلودگی کے ذمہ دار بہت سے عوامل ہیں جن میں میونسپل سیوریج، مذبح خانوں سے نکلنے والی غلاظت، کیڑے مار ادویات پر مشتمل زرعی فضلہ اور صنعتی کچرا قابل ذکر ہیں جبکہ اس کے علاوہ فرٹیلائزر کے کارخانے، پاور پلانٹس اور کارخانوں کا کچرا یا فضلہ بھی سمندری آلودگی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویویشن آف نیچر کے مطابق ٹائروں اور ٹیکسائل سے نکلنے والے پلاسٹک کے باریک ذرات سمندر کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پندرہ سے تیس فیصد تک پلاسٹک کی آلودگی ان باریک ذرات سے ہوتی ہے جن کی دو بڑی وجوہات ہیں مصنوعی کپڑے جن کے دھونے سے یہ ذرات نکلتے ہیں اور گاڑیوں کے ٹائروں کی رگڑ سے الگ ہوتے ہیں یہ باریک ذرات سمندری ماحول کو آلودہ کرنے کے ساتھ ہماری سمندری خوراک کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام) یو این ڈی پی(کے مطابق بحری آلودگی کی اسی فیصد وجہ مختلف زمینی ذرائع ہیں جن میں دریاؤں کی پانی کی آلودگی، شہروں اور صنعتوں سے خارج ہونے والا گندا پانی وغیرہ شامل ہیں۔

ادارہ تحفظ ماحولیات کے مطابق کراچی میں موجود چمڑے کے کارخانوں کا آلودہ کیمیائی پانی اور مختلف فارم ہاؤسز سے جانور ں کے فضلے کو سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ گھی اور خوردنی تیل کے کارخانوں کے آلودہ پانی میں گریز اور دیگر کیمیائی مادوں کی مقدار نیشنل انوائرمنٹ کوالٹی اسٹینڈرڈز کے مطابق بہت زیادہ ہوتی ہے۔ان سب وجوہات کی بناء پر ا ٓبی حیاتیات اور سمندری ماحول کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ پلاسٹک بیگز بھی سمندری آلودگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں سمندری ماحول میں بڑھتی ہوئی پلاسٹک آلودگی کی وجہ سے سمندری حیاتیات بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

پلاسٹک سے بنی ہوئی بوتلیں، شاپنگ بیگز اور دیگر اشیاء آبی حیات کی زندگی کو نقصان پہنچا رہی ہیں جس سے ان کی افزائش میں بھی واضح کمی نظر آنی شروع ہو گئی ہے۔ماہرین ماحولیات کے مطابق سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجوہات میں ایک اہم وجہ سمندر میں موجود پلاسٹک کے کچرہ بھی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق 2050 تک سمندر پلاسٹک سے اس قدر بھر جائیں گے کہ سمندری حیات کی تعداد کم ہو کر کچرے کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔

پلاسٹک کے بہت چھوٹے ٹکڑوں کو یعنی مائیکرو فائبرز کو چھوٹی مچھلیاں اپنی خوراک سمجھ کر کھا جاتی ہیں اور پھر جب بڑی مچھلیاں ان چھوٹی مچھلیوں کو اپنی غذا کا حصہ بناتی ہیں تو پھر یہ بڑی مچھلیاں انسان کے دستر خوان کی زینت بن جاتی ہیں۔ ان سمندری خوراک میں موجود یہ زہریلے ذرات انسانی جسم میں کینسر جیسے موذی امراض کا باعث بنتے ہیں۔اس کے علاوہ ساحل سمندر پر قائم ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بھی سمندری آلودگی میں اضافے کا باعث بن ر ہے ہیں اور رہی سہی کسر ساحل سمندر پر موجود مختلف ٹھیلے اور ریڑھی والے پوری کر دیتے ہیں جو اپنا سارا کچرا سمندر کی نذر کر کے گھر کی راہ لیتے ہیں۔

ساحل سمندر پر تفریح کی غرض سے آنے والے ماحولیاتی شعور سے لاعلم افراد بھی مختلف غذائی اشیاء کے خالی ڈبے، پلاسٹک کی بوتلیں، شاپنگ بیگز اورکھانے پینے کا سامان وغیرہ ساحل پر پھینک کر چلے جاتے ہیں جو تیز ہوا اور سمندر کی لہروں کے ساتھ سمندرمیں شامل ہو کر سمندری آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ساحل سمندر پر اسپتالوں سے نکلنے والے فضلے کی موجودگی کی بھی تصدیق ہوئی۔جن میں خون آلود سرنجز،آلودہ روئی، خون کی بوتلیں وغیرہ شامل تھیں جو سمندری آلودگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہاں کی سیر کرنے والوں کے لئے ہیپا ٹائٹس، ایڈز اور دیگر موذی امراض پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

پاکستان کے سمندری حدود میں سمندری آلودگی کی ایک اوراہم وجہ سمندری جہازوں اور لانچوں سے رسنے والا گندا تیل اور سمندری حادثات کی صورت میں وافر مقدار میں بہنے والا تیل بھی ہے جو ہمارے ساحلوں کو زہر آلود کر رہا ہے اور ان میں موجود آبی حیاتیات کے زندگی کو خطرات سے دوچار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ سمندر ی ساحل کے نزدیک واقع مختلف جوہری کارخانوں سے نکلنے والا کیمیائی اور تیزابی ٹھوس اور آبی فضلہ بھی سمندر کی نذر کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف سمندری آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ان کی موجودگی سے مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیاتیات کو مناسب طور پر آکسیجن کی فراہمی ممکن نہیں ہو پاتی ہے جس سے ان میں سے بہت سے اقسام اب ناپید ہوتی جارہی ہیں اور اس کی وجہ سے پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اتکاز بڑھتا جارہا ہے جس کے سبب سمندری ماحول آبی حیاتیات کیلئے زہریلا ہو کر تقریباً ڈیڈ زون میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کا9/10 حصہ سمندر میں جذب ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ساحل پر موجود مونگے بھی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اگر یہی صورتحال رہی تو2050 تک یہ مونگے یا مرجان مکمل طور پر ختم ہونے کے امکانات ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی کا 50 لاکھ گیلن یومیہ آلودہ اور مضر صحت پانی سمندر میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ صرف آبی حیاتیات تباہ ہو رہی ہے بلکہ سمندر میں زہریلے اور کیمیائی مادوں کی مقدار میں بھی مستقل بنیادوں پر اضافہ ہو رہا ہے۔

کراچی میں چھ صنعتی اسٹیٹس قائم ہیں جہاں تقریباً چھ ہزار صنعتیں موجود ہیں جن سے نکلنے والا زہریلا فضلہ نالوں کے ذریعے سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت اب تک صوبے میں مختلف صنعتوں سے نکلنے والے فضلے کو ٹریٹ کرنے کے تقریباً 130 پلانٹس لگوا چکی ہے مگر صنعتی فضلے کو ان کی پیداوار کے مقام پر ہی ٹریٹ کرانے کو یقینی بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ طریقہ کار موجود نہیں ہے اور نہ ہی سمندری آلودگی میں اضافے کی نگرانی کی جاتی ہے۔سمندر میں آلودگی کی وجہ سے سمندری حیاتیات یا زندگی کے ساتھ ساتھ سمندری ماحول کیلئے بھی خطرات پیدا ہورہے ہیں۔

سمندر کے اطراف میں موجود مینگرو کے جنگلات متاثر ہو رہے ہیں اس کے علاوہ سمندرمیں بھی آلودگی کے باعث گلوبل وارمنگ کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے سمندر کو بھی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس وجہ سے سمندری حیاتیات کی بقاء بھی خطرے میں نظر آرہی ہے اور مسلسل درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندری ماحولیاتی نظام یا ایکو سسٹم کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

سمندری آلودگی کی وجہ سے وہاں کے ایکو سسٹم پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سمندر میں موجود جانداروں کی خوراک کا دارومدار پودوں یا پھر ایک دوسرے پر ہوتا ہے۔ چھوٹی مچھلیاں پودے کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی مچھلیوں کو بڑی مچھلیاں اپنی خوراک کا حصہ بناتی ہیں۔ مگر پودوں کی کمی کی وجہ سے چھوٹی مچھلیوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی جا رہی ہے جس کے ساتھ سمندری حیاتیات کے پورے نظام میں بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات وسیع ہوتے جارہے ہیں۔سمندری آلودگی کی وجہ سے سمندری حیاتیات یا تو ناپید ہوتی جارہی ہیں یا پھر نقل مکانی کے عمل سے گزر رہی ہیں جس کی وجہ سے مچھیروں کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے او ر سمندری خوراک میں کمی اور آلودگی کی وجہ سے ہماری بر آمدات پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ جب ہم آلودہ پانی اپنی فصلوں کی آبیاری کیلئے استعمال کرتے ہیں تو بالآخر براہ راست انسانی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں۔ہمیں ساحل سمندر اور اس کے ارد گرد کی جگہوں کو صاف رکھنے کی اشد ضرورت ہے اور کچرے کو ساحل پر پھینکنے کے بجائے کوڑے دان میں ڈالنا چاہئے۔ جبکہ کارخانوں اور صنعتی فضلے کو مناسب طور پر ٹھکانے کے باقاعدہ انتظامات کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی میں قدرتی طریقے استعمال کرنے کے ساتھ زراعت میں کم سے کم کیمیائی کھادوں اور مادوں کا استعمال کرنا چاہئے۔

پلاسٹک بیگز کے استعمال کو ہر ممکن حد تک کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان کے نعم البدل کے طور پر ایسے سستے بیگز متعارف کروانے چاہئے جو سمندری آلودگی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی کو بھی پلاسٹک کی آلودگی سے صاف کرنے کی کوششوں میں موثر ثابت ہوسکیں۔سمندر ہمارا ایک ایساقیمتی سرمایہ اور ورثہ ہے جس کی اگر مناسب وقت پر اچھی طریقے سے دیکھ بھال نہ کی گئی تو کوئی بعید نہیں ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں صرف تصویروں میں ہی اس خوبصورت دنیا کا نظارہ کر سکیں۔