|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2014

اب ڈرون طیاروں کے اس نئے بیچ کو بغیر پائلٹ کے ان طیاروں کی بہ نسبت نظر انداز کرنا کچھ مشکل ہوجائے، جو شمال مغرب میں تباہی اور نقصان کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ ملک میں ہر قسم کی عوامی تقریبات کے دوران ڈرون کیمروں کا استعمال ایک حقیقت بنتا جارہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ مشاہدہ لاہور میں ہو، جب اتوار کو یوم علی کے جلوس کے تحفظ میں اضافہ کرنا مقصود تھا۔ سیاسی جلوسوں جیسے مواقعوں کی خبریں نشر کرنے کے لیے ان ڈرون کیمروں کے استعمال کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت ڈرون طیارے ایک بہترین ٹول کے طور پر سیکیورٹی ایجنسی سے لے کر ٹیلیویژن چینلز تک کی مدد کرنے لیے تیار ہیں، جو لائف کوریج کے لیے بہترین امکان کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں امیزن جیسے ادارے اپنی تجارتی ترسیل میں اضافے اور پرواز کے دورانیے کو دیکھتے ہوئے ڈرون کو اپنے سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کرنے پر غور کررہے ہیں۔ اس ترقی کی قبولیت بڑھتی جارہی ہےاور پیشگوئی ہے کہ اس کی پاکستان میں بالکل بھی مزاحمت نہیں کی جائے گی۔ بلاشبہ یہاں سیکیورٹی چیلنجز موجود ہیں، اور یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں ڈرون کیمرے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ جوش و خروش کا یہ احساس ظاہر کرتا ہے کہ اس ایجاد کے مثبت اور منفی تمام پہلوؤں سے قطع نظر ڈرون کیمروں کے استعمال میں تاخیر نہیں ہونی چاہیٔے۔ حال ہی میں جب ایک ڈرون کیمرہ ڈیویلپر سے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا کہ چھوٹے ڈرون کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے، تو انہوں نے کہا ’’اس کے لیے ضابطےبنائے جائیں، جو اس کے غلط استعمال کو روکیں۔‘‘ بہت سے ممالک میں قانون ساز اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ڈرون کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال پر قانون سازی کریں، جس سے پرائیویسی کے بنیادی پہلو پر حملے کی روک تھام کی جائے۔ پاکستان میں سیکیورٹی ایجنسیوں اور افسوس کے ساتھ میڈیا کی جانب سے دھڑلّے کے ساتھ پرائیویسی کے تصور کی خلاف ورزی ایک معمول ہے۔ یہ جدید انسٹرومنٹ جس تیزی کے ساتھ یہاں استعمال کیا جارہا ہے، اس لیے خطرناک بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ممکنہ غلط استعمال سے روکنے کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں۔