|

وقتِ اشاعت :   July 24 – 2014

فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے، تا حال 650ہلاک اور چار ہزار کے قریب معصوم اور نہتے لوگ زخمی ہیں ۔ امریکا اور دنیا کے اکثر ممالک اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہے ہیں ۔ بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کررہے ہیں ۔ دنیا بھر کی حکومتیں سوائے چند ایک کے ‘ فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت میں ہیں ۔ یہاں تک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اسرائیل میں اپنی تقریر میں اسرائیل پر راکٹ حملوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کو نہتے اور معصوم لوگوں پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی افواج کی فلسطین میں نسل کشی نظر نہیں آتی ۔ امریکی صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل صرف یہ کہتے ہوئے قتل عام کی حمایت کررہے ہیں کہ’’ اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ‘‘ حاصل ہے یعنی فلسطینیوں کی آئے دن قتل عام بلکہ نسل کشی جائز ہے ۔ یہ ہے دنیا کا انصاف چونکہ امریکا اور یورپی ممالک فلسطینیوں کی نسل کشی کے حامی ہیں اس لئے امریکا کے زیر اثر ممالک بھی زبردست طریقے سے اسرائیل اور اس کی جارحیت کی مخالفت نہیں کرتے ۔ صرف واجبی بیان جاری کیا اور سفارتی الفاظ میں اس جارحیت کی مخالفت کردی ۔ دوسری جانب دنیا بھر میں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی جارہی ہے ۔ یورپ کے دو ممالک کی حکومتوں نے اس بات پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا کہ ان کے اپنے شہری اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کررہے ہیں ۔ان ممالک میں اسرائیل کے خلاف با قاعدہ مہم چلا رہے ہیں ۔ ان حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے شہریوں کو اسرائیل کے خلاف مہم چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری جانب دنیا بھر کے سینکڑوں شہروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بہت بڑے بڑے مظاہرے تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں ۔ بعض ممالک میں لاکھوں افراد اسرائیل مخالف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی عوامی رائے عامہ دیکھ کر پریشان ہیں اور جلد سے جلد جنگ بندی کی کوشش تیز تر کررہے ہیں ۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسی ہی عوامی قوت کا مظاہرہ ہوچکا ہے ۔ ویسے بھی اسرائیل ایک جارح ملک کی حیثیت سے پورے خطے میں تنہا رہا ہے اور اب بھی ہے ۔ اس کا کوئی دوست اس خطے میں نہیں ہے ۔ امریکا اور مغربی ممالک اس کے حمایتی ہیں ۔ حماس ایک سیاسی قوت کے طورپر ابھرا ہے اس کو عوامی حمایت حاصل ہے اسرائیل کا بنیادی غصہ اس بات پر ہے کہ غزہ اور غرب اردن نے حال ہی میں اتحاد کیا اور پورے فلسطین کیلئے ایک اتحادی حکومت قائم کی ۔ اسرائیل بہانہ تلاش کررہا تھا کہ حماس اور اس کے حامیوں کی سیاسی قوت کو توڑ دے اور اس کا خاتمہ کرے ۔ تین اسرائیلی لڑکوں کے اغواء اور قتل سے اس کو فلسطین پر حملہ کرنے اوران کے قتل عام کو جوا ز مل گیا ۔ اسرائیل کا بنیادی مقصد فلسطینی عوام کو سزا دینا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کی حمایت ترک کردیں ۔ قتل عام کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلا کر حماس اور دوسرے فلسطینی پارٹیوں کی حمایت کو ختم کرانا چاہتا ہے جو فلسطین کی مکمل آزادی اور اس کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں یہودی ‘ مسلمان اور عیسائی ایک ساتھ رہ سکیں گے۔ اسرائیل کا یہ مطالبہ دنیا تسلیم نہیں کرے گی کہ اس کو ایک مذہبی اور یہودی ریاست تسلیم کیا جائے ۔ وہ بھی فلسطین کی عرب سرزمین پر ‘ بنیادی تنازعہ یہی ہے کہ مغربی ممالک نے دور دراز علاقوں سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آبادکیا اور ایک یہودی ریاست بنائی جس کو عرب اور مسلمان مالک تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ یہودیوں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کاجائز مطالبہ یہ ہے کہ فلسطینی مہاجرین جن کو گھروں سے نکالا گیا تھا ان کو واپس اپنے ملک اور سرزمین پر آباد کیاجائے ۔ اسرائیل اس مطالبے سے خوفزدہ ہے جس سے اسرائیل کی بنیاد بہ حیثیت یہودی ریاست کے ختم ہوجاتی ہے۔