اسلام آباد : تین جنوری 2014ء کو گولڑہ کا رہائشی شکیل معاویہ بہت خوش تھا کیونکہ ایک دن پہلے ہی اس کا بھائی مفتی منیر معاوجہ جیل سے رہا ہوا تھا۔
صبح کے وقت جیل سے رہا ہونے والے مفتی منیر اپنے سسر مولانا عبدالحمید صابری سے ملنے سیکٹر آئی ایٹ گئے، شکیل گھر میں رات کو دعوت کی تیاری میں مصروف ہوگیا مگر دوپہر میں بھائی کے سسر نے فون کرکے اس سے کہا کہ ” میں آئی ایٹ آنے کے لیے ایچ ایٹ کے ایک نجی ہسپتال کے قریب سے گزارا تو میں نے وہاں غیرمعمولی ٹریفک جام دیکھا”۔
انہوں نے کہا “وہاں متعدد پولیس اہلکار موجود تھے جو موٹرسائیکل سواروں کی تلاشیاں رہے تھے، جب میں آئی ایٹ پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ کچھ موٹرسائیکل سواروں نے میرے بھائی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے، جبکہ اس کے ساتھ گاڑی میں موجود دوست اسد محمود عباسی بھی ہلاک ہوگیا ہے”۔
شکیل نے بتایا” میرے بھائی کی بیوی، گیارہ سالہ بچی اور تین بیٹے اب گولڑہ میں مقیم ہیں، میں پورے خاندان کا خیال رکھ رہا ہوں جبکہ ہمیں اہلسنت و الجماعت کی جانب سے بھی کچھ امداد ملی ہے”۔
شکیل نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے کچھ زیادہ مدد فراہم نہیں کی” انٹیلی جنس ادارے جانتے ہیں کہ اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے مگر وہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نہیں، میرے خیال میں اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ انٹیلی جنس اداروں کے ملوث اور ان کی معلومات کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
شکیل کا کہنا تھا کہ مفتی منیر اہلسنت و الجماعت کا واحد رکن نہیں جسے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں گزشتہ دس ماہ کے دوران تیرہ ایسے اراکین کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔
بیس دسمبر 2013ء کو نواب کالونی ڈھوک ہاسو کے اکیس سالہ رہائشی ایڈووکیٹ مظہر مبارک اپنے گھر سے خاندان کے ہمراہ باہر نکلا ہی تھا کہ ایک موٹرسائیکل پر سوار تین افراد نے فائرنگ کردی، مظہر موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، جبکہ اس کی دو بہنیں زخمی ہوگئیں، تاہم والدہ محفوط رہیں۔
مظہر کے بھائی ہائیکورٹ میں ایڈووکیٹ اصغر مبارک نے ڈان کو بتایا کہ مظہر ان شعیہ افراد کی وکالت کررہا تھا جن کے خلاف یوم عاشور (15 نومبر 2013ٗء) کے سانحہ راجا بازار کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا، اس واقعے میں دس افراد ہلاک اور 44 زخمی ہوگئے تھے۔
اصغر مبارک نے بتایا” میں نے اس مقدمے کو جاری رکھا اور خوش قسمتی سے کورال پولیس نے تین افراد کو گرفتار کرلیا جنھوں نے میرے بھائی کے قتل کا اعتراف کیا ہے”۔
انہوں نے بتایا” محمد قاسم الیاس لالہ، کاشف اشفاق اور انس قیوم کو رتہ امرال پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا، عدالت میں جمع کرائے گئے چالان کے مطابق ملزمان نے بتایا کہ انہیں افغانستان میں تربیت دی گئی تھی اور شروع میں حرکہ المجاہدین سے تعلق رکھتے تھے جس کا نام بعد میں انصارالامہ رکھ دیا گیا تھا”۔
اصغر کا کہنا تھا کہ گروپ کا ایک رکن ہمارے گھر کے قریب کام کرتا تھا تاکہ ہمارے خاندان کی سرگرمیوں سے آگاہ رہے۔ مظہر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والا وہ واحد شخص نہیں جس کا تعلق اہلِ تشعیہ فرقے سے تھا۔
حالیہ مہینوں میں متعدد افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کا مقصد واضح طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی ہی ہے۔
مفتی منیر کی موت کے بعد قاری محمد عارف اور درویش خان کو راولپنڈی میں ہلاک کیا گیا، جبکہ حافظ سہیل معاویہ کھانہ برج کے پاس ہلاک ہوئے۔
اہلسنت و الجماعت کے رکن ابوبکر اور اظہار الحق فاروقی کو خیابان سرسید میں ہلاک کیا گیا، مفتی عمران پر اس وقت فائرنگ ہوئی جب وہ اڈیالہ روڈ پر اپنے گھر سے باہر آرہے تھے، جبکہ مفتی اشتیاق اور قاری ناصر محمود عباسی کو ایک ہی روز مری روڈ پر ہلاک کیا گیا۔
سترہ جولائی کو اہلسنت و الجماعت کے رہنماﺅں قاری سیف اللہ اور اسلم شاکر ڈھیمل ائیربیس کے قریب موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ہلا ک کیا۔
مئی 2014ء میں حسن ابدال میں ڈاکٹر فیصل منظور کو ان کے ہسپتال کے باہر فائرنگ کرکے مارا گیا، جبکہ مارچ کے اوائل میں قاتلوں نے حسن ابدال میں ہی ڈاکٹر بدر علی کی زندگی کا خاتمہ کیا تھا جو ڈاکٹر فیصل منظور کے رشتے دار تھے۔
اپریل 2014ء کو چمن زار میں موٹرسائیکل سواروں نے اندھادھند فائرنگ کرکے سائیں گوگا کو ہلاک کردیا، جو کہ چمن زار مزار کے متولی بھی تھے۔
حشمت علی کالج ڈھوک کشمیراں کے پروفیسر عمرانی جنوری کی ایک سرد صبح کالج جارہے تھے کہ ایک موٹرسائیکل پر سوار دو افراد نے چھ گولیاں ان کے جسم میں اتار دیں تاہم خوش قسمتی سے وہ زندہ بچنے میں کامیاب ہوگئے۔
اہلسنت و الجماعت کے رکن حافظ انیب فاروقی نے ڈان کو بتایا کہ ان کی جماعت کے تمام اراکین کو موٹرسائیکل سواروں نے ہلاک کیا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان تمام ہلاکتوں میں ایک ہی گروپ ملوث ہے کیونکہ تمام افراد کو سر یا چہرے پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ وہ بچ نہ سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے کبھی بھی اہلسنت و الجماعت کے ہلاک اراکین کے ورثاء کو کسی قسم کا معاوضہ ادا نہیں کیا، جبکہ مسلسل ہلاکتوں کے باعث اب ہمارے اراکین آزادی سے گھوم پھر بھی نہیں سکتے۔
دوسری جانب مجلس وحدت المسلمین راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل راحت کاظمی نے کہا کہ خود انہیں بھی خطرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا” رواں برس اپریل میں کسی نے مجھے ایک خط کے ذریعے دھمکی دی کہ اگر میں نے شعیوں کے حقوق کے لیے کام کرنا بند نہیں کیا تو مجھے قتل کردیا جائے گا، اس خط کے دو روز بعد ہی کسی نے میرے گھر کے باہر کافی توہین آمیز نعرے لکھ ڈالے تھے”۔
وحدت المسلمین کے رہنماءسعید الحسن نقوی نے ڈان کو بتایا کہ شہروں میں شعیہ برادری کو نشانہ بنائے جانے کے برعکس اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہمارے کسی رہنماءپر حملہ نہیں ہوا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے لوگوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں مگر ہم یہ معاملہ عوام کے سامنے نہیں لائے، جب ڈاکٹر فیصل کو حسن ابدال میں ہلاک کیا گیا تو اس کے رشتے دار احتجاج نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ انہیں بھی ہدف نہ بنالیا جائے۔
انیس جولائی کو دو موٹرسائیکل سواروں نے اہلسنت و الجماعت کے رہنماء مولانا عبدالرحمن معاویہ کے جی سکس میں واقع رحمانیہ مسجد کے دفتر پر فائرنگ کی، جبکہ چوبیس جولائی کو آر پی او راولپنڈی اختر عمر حیات لالیکا نے دعویٰ کیا کہ اہلسنت و الجماعت کے رہنماء مفتی عمران فاروقی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔