|

وقتِ اشاعت :   February 5 – 2020

مستونگ:  چیف آف سراوان سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور رکن صوبائی اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ اس ملک کو ٹریک پر لانے کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے وفاق بردباری کا مظاہرہ کر کے 18 ویں ترمیم پر من و عن عمل در آمد کر کے ڈیفنس خارجہ امور اور کرنسی کے علاوہ تمام اختیارات وفاقی اکائیوں کے حوالے کرے تب ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔

موجودہ صوبائی ایک چورس پہیہ کی مانند چل رہی ہے اس لیے جلد اسکی ٹوٹنے کا خطرہ ہے، اگر اپوزیشن صوبے میں حکومت یا ان ہاؤس تبدیلی لانے پر متفق ہوئے تو میں اپوزیشن کے ساتھ شانہ بشانہ ہوں، گوادر بلوچوں کی ملکیت اور بلوچستان کی اٹوٹ انگ ہے کسی کو چھینے یا قبضہ کرنے کی قطعی طور اجازت نہیں دینگے ان خیالات کا اظہار سابق وزیر اعلیٰ نے مستونگ کے دورے کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

دورے کے موقع پر انھوں نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے زونل انچارج حاجی نزیر احمد لانگو کے و دیگر کے ساتھ ذاکر ہوٹل کے ملحقہ کلیوں اور کوشکک کے مقام پر گیس فراہمی کے منصوبوں کا افتتاح کیا جبکہ ڈی سی آفس میں ڈپٹی کمشنر مستونگ محبوب اچکزئی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رنماوں اور قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔

اس موقع پر نوابزادہ میر رئیس خان رئیسانی اسسٹنٹ کمشنر مستونگ حبیب الرحمان لونی سوئی سدرن گیس کمپنی کے زونل انچارج حاجی نزیر احمد لانگو جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیصل منان ڈسٹرکٹ اٹارنی بلال خان خلجی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء میر سکندر خان ملازئی پی پی پی کے صدر محمد قاسم علیزئی جنرل سیکریٹری میر لونگ خان سارنگزئی مرتضی لہڑی حاجی حیدر بنگلزئی میر مولاداد محمد شہی حاجی شکر خان بنگلزئی ودیگر بھی موجود تھے۔

علاوہ ازیں ممتاز قبائلی رہنماء میر خالد ولید بنگلزئی نے چیف آف سراوان کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ رحیم آباد کے مقام پر ظہرانہ دیا۔اس موقع پر نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے سراوان پریس کلب کے صحافیوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمسائیہ ممالک سے بہتر تعلقات نہ ہونے سے ملک اندرونی خلفشار کا شکار اور پورے خطے میں ہم اکیلے ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا تبدیلی کے دعوے دار حکومت نے 17 ماہ کی دور اقتدار میں تبدیلی و ترقی درکنار ملک کا بھیڑہ غرق کر دیا ہے ملک میں مہنگائی کا راج ہے ہوشربا مہنگائی کے ہاتھوں عوام خود کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں ایک سوچ وژن اور گوادر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے گوادر کو صوبے کا سرمائی دارلحکومت قرار دیا لیکن میرے بعد موجودہ حکومت حکمرانوں نے گوادر میں قائم چیف منسٹر آفس میں ایک میٹنگ بھی کرنے کی زحمت نہیں کی اور اب اس دفتر پر مقتدد قوتوں نے قبضہ کر لیا ہے المیہ تو یہ ہے کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کا چیرمین بھی پورٹ کے اندر اپنی مرضی سے نہیں جا سکتے۔

سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور برفباری سے مستونگ سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے نقصانات کے ازالہ پر حکومت نے کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دیا اسمبلی کے رواں سیشن میں بھر پور آواز بلند کرونگا۔