|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2020

بلوچستان میں زندگی کی مشکلات باقی دنیاسے یکسرمختلف اورمشکل ہیں یہاں ہرشعبہ ہائے زندگی کی اپنی مشکلات اورمراحل ہوتے ہیں لیکن صحافت تواس ریجن میں مشکل اورخطرات سے بالکل بھی خالی نہیں ہے بلوچستان میں صحافت کرناجگرگردے کاکام ہے جہاں خبرچھاپنا موت سے بھی بدتر،نہ چھاپنااس سے بھی خطرناک لیکن بلوچستان میں چندصحافی ہیں جنہوں نے صحافت کوبطورمہذب پیشہ اپنایاجوحقیقت میں صحافتی آداب اورصحافت کی قدرومنزلت کواپنی جان پرکھیل کرتحفظ اورعوام کے مساحل کیلئے ذریعہ نجات بنایا۔

اس شعبہ میں جہاں اپنی زندگی کوتمام انسانی بنیادی آسائشوں سے محروم رکھاجاتاہے تووہاں اپنی زندگی پرکھیل کراس مہذب شعبہ کوتقویت بھی پہنچائی جاتی ہے۔ بلوچستان سے ایک ایسانام جوملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی اپنے عمل وکردارسے صحافت کوعزت بخشی، اسے ہمسے جداہوئے دو سال ہوئے ہیں لیکن اس کی کمی ابھی تک محسوس ہوتی ہے وہ عہدسازشخصیت لالاصدیق ہیں وہ بطور ایک انسان نہیں بلکہ ایک باب بن کرہمیشہ صحافت میں جرات کیساتھ بلوچستان کی آوازبنارہیگا۔لالاصدیق بلوچ روزنامہ آزادی اوربلوچستان ایکسپریس کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی اورحق وصداقت پرمبنی اپنی تجاویزسے سیاسی کارکنوں کوسیاسی نشیب وفرازسے پیشگی باخبررکھتے تھے کہ آنے والے کل بلوچستان کوکن چیلنجزکیلئے کس طرح کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے لالا صدیق بلوچ حق وانصاف میں ایک نام اور باکمال عنصر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس نے اپنے قلم کو اس انداز میں استعمال کیا کہ اکیسویں صدی میں بلوچستان جیسی سرزمین کوایک قلم کارکی راہ بندی کی اشدضرورت ہے جواس اہم جیوپولیٹیکل اہمیت کے عامل خطہ میں بسنے والے پسماندہ سماج کو مسائل اور مشکلات سے نجات دلانے کیلئے پیش بندی کرے۔

لالا صدیق بلوچ نے ایسے ہی حالات میں اپنے قلم کے ذریعے استحصال کے شکاربلوچ قوم کو مسائل سے دستبردارکرنیکی حکمران طبقہ کے چیلنج کو قبول کیا اور مشکلات و مسائل کے باوجود صحافتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بے باکی اور جرات مندانہ صحافت کو آگے بڑھایا۔انہوں نے اپنے قلم کی نوک سے بلوچستان کے پسماندہ طبقات کی حقیقی نمائندگی کا حق پوری دنیا میں آشکار کرتے رہے۔

لالاصدیق بلوچ نے مشرف کے دس سالہ دور حکومت میں جہاں صحافت پر قدغن تھی اور صحافتی برادری کوخریدنے،دھمکانے کے بعدٹارگٹ کیاجارہا تھااس کے باوجوداس دباؤکوقبول نہ کرنااتناآسان نہیں جس میں صحافتی شعبہ کوبچانے اورغیرجانبدارانہ اورقوم دوست صحافت کیلئے اینکرپرسن حامدمیراوروزنامہ آساپ کے بانی جان محمددشتی پربراہ راست حملہ ہونے کے باوجودبیباک اوربلا خوف صحافت کواستحکام اورثابت قدمی سے جاری رکھناکسی محاذکوسرکرنے سے کم نہیں، ان تمام مراحل میں جہاں اچھے سے اچھے قلم کاروں کے قلم کی سیاہی بھی خشک ہوئی یاان کا قلم سماج کے بجائے سرکارکی زبان لکھنے لگی لیکن لالاصدیق بلوچ نے آخر دم تک بیباک اورجرات مندانہ صحافت کیساتھ قوم دوست اوروطن دوست صحافت کوفروغ دیاجن کی تصانیف انکی ذہنی آزادپسندی اورخوداردی کا مظہرہیں کہ جو نہ جھکے نہ بکے بلکہ اپنے قلم سے قومی علم کوتوانابنانے کی کوشش آخردم تک کرتے رہے۔

لالاصدیق بلوچ کی جدائی بلوچستان جیسی سرزمین برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ ان جیسے آزادرائے رکھنے والے صحافی ہزاروں سالوں میں پیدانہیں ہوتے۔صدیق بلوچ کی خدمات بلوچستان کیلئے ہمیشہ زندہ اورراہ بند رہینگے۔