اکیسویں صدی کا سورج اپنے پہلو میں نت نئی ایجادات لے کر طلوع ہوا اور اس دوران ہونے والی ایجادات اور پہلے سے موجود وسائل میں جدت آنے کے باعث دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ وہ جو ہم ”گلوب“ کی بات کرتے ہیں وہ عملی طور پر متشکل ہوگئی، دنیا سمٹ کر ایک گاؤں میں بدل گئی جہاں کسی بھی شخص تک رسائی ناممکن نہیں، ہونے والی ترقی اور نت نئی ایجادات نے یوں تو ہر شعبے پر اپنے انمٹ نقوش مرتب کئے لیکن صحافت کے شعبے کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی۔
ٹھہریئے، صحافت کی تعریف اکیسویں صدی میں بھلے بدل گئی ہو لیکن پیمانہ اور کسوٹی آج بھی وہی ہے۔ وہ کسوٹی کیا ہے؟ وہ کسوٹی یہ ہے کہ آپ بطور صحافی خبر کی خبریت، اس کے مابعد اثرات کا کس قدر ادراک رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ اپنے قلم اور اپنی صلاحیتوں کو سماج کی بہتری کے لئے بروئے کار لاتے ہیں یا پھر اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے۔ اگر اپنی جیب بھرنا اور اشرافیہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنا آپ کے قلم اور آپ کی صحافت کا مقصد ہے تو پھر وہ اینکرپرسن جو پرائم ٹائم میں بیٹھ کر خود کو علامہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔
وہی سینئر صحافی، معروف قلمکار ہے اور اگر آپ کی صحافت کا مقصد مشنری جذبہ ہے، آپ سماج کی بہتری کے لئے اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس راہ میں آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کرتے ہیں تو پھر پرائم ٹائم کے مسخرے آپ کے قدموں کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ آپ محض گفتار سے نہیں کردار سے ثابت کررہے ہوتے ہیں کہ صحافی سماج کی آیا ہے جس سے کچھ بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ صدیق بلوچ بھی صحافیو ں اور دانشوروں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پیش نظر ذات سے زیادہ اجتماع اور خاندان سے زیادہ سماج مقدم اہمیت رکھتا ہے۔
صدیق بلوچ پر ان کے جیتے جی بھی کافی کچھ لکھا جاچکا ہے وہ کسی کے سراہے جانے کے محتاج نہیں نہ ہی ایک آدھ اکیڈمی بنا کر ان کی ان مشکلات اور پریشانیوں کا احاطہ ممکن ہے جس کا سامنا انہوں نے سیاست، معاشرت اور بالخصوص صحافت کی وادی پرخار میں کیا۔ان سطور کے ابتدائیے میں وسائل میں اضافے اور جدت کی بات ہوئی۔
اخبار ی صنعت تمام تر جدت اور آسانیوں کے باوجود آج بھی ملک کے باقی حصوں میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص انتہائی نگہداشت کے مرحلے میں ہے جہاں روزنامہ تو دور سہ ماہی جریدہ نکالنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن ماما (صدیق بلوچ) نے یہ مشکل مرحلہ سر کیا اور ثابت کیا کہ اگر آپ کے پاس جذبہ اور خلوص ہو تو آپ کو ذات سے قافلہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ کیا ہوا جو آج صدیق بلوچ نہیں ان کا بنایا ہوا ادارہ تو موجود ہے جہاں ان کے بعد عارف بلوچ، آصف بلوچ،ظفر بلوچ، طارق اور صادق براجمان ہیں اور ماما کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ماما کی بہت ساری خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بھانپ لیتے تھے اور ان سے کام لیتے تھے فی زمانہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جب پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کے لئے کسی کے پاس وقت ہی نہیں، ماما کے بعدآصف بلوچ نوجوانوں کو لکھنے لکھانے کی تحریک دے رہے ہیں۔ ماما کے انتقال کو دو برس بیت گئے اور پتہ بھی نہیں چلا۔
لیاری میں آنکھ کھولنے والے ماما نے 78سال کی زندگی میں ہر انسان کی طرح نشیب و فراز کے کئی مراحل طے کئے جن کا مکمل احاطہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ آپ اگر گوگل ویکیپیڈیا میں جائیں یا یونہی سرچ انجن میں جا کر ”صدیق بلوچ“ لکھیں تو آپ کے سامنے بلوچستان اپنی تمام تر رعنائیوں، سرد و گرم حالات، المیوں کے ساتھ کھل کر سامنے آجائے گا۔
کہیں ان کی تحاریر، تجزیئے، تبصرے، کہیں ان پر لکھی گئی تحاریر، تحریری مواد، تصاویر، ویڈیوز۔ کیا متحرک زندگی پائی اور کس وقار کے ساتھ جان لیوا بیماری کا پتہ چلنے کے بعد بھی پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں مصرو ف رہے سن کر اور جان کر رشک آجاتا ہے۔برسبیل تذکرہ ان کا مختصر تعارف بھی ہوجائے۔
صدیق بلوچ جنہیں اکثر صحافی ماما کہہ کر پکارتے۔ 1940ء کو روشنیوں کے شہر میں اس جگہ پیدا ہوئے جس کے ساتھ کراچی کا ہر بلوچ رومانوی تعلق رکھتا ہے، مطلب لیاری۔ برصغیر کی تقسیم ان کے بچپن کا واقعہ ٹھہرا اور جب ہوش سنبھالا تو کراچی، کراچی بننے جارہا تھا جہاں مشینی زندگی کاآغاز ہورہا تھا ماما بھی اگر چاہتے تو اس مشینی زندگی کا حصہ بن سکتے تھے اگر وہ مادی سے زیادہ معنوی چیزوں کو اہمیت نہ دیتے توشایدپیسہ بہت کماتے، جاگیریں بھی بنالیتے لیکن آ ج ان کا تذکرہ کوئی بھی بلوچ فخریہ انداز میں نہیں کرتا۔ زمانہ طالب علمی سے متحرک شخصیت پائی تھی، نامساعد اورمشکل حالات میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے کھیلوں میں بھی حصہ لیتے رہے، فٹبال کے بہترین کھلاڑی قرار پائے اور طلبہ سیاست میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرنے لگے۔
انہوں نے جامعہ کراچی سے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔معاشیات یا اقتصادیات سماجی علو م کی ایک اہم شاخ ہے جس مادی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور ان کی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے بعض ماہرین کے مطابق علم معاشیات ہمیں انسانی رویوں کا مطالعہ سکھاتا ہے اور محدود ذرائع میں لامحدود مسائل سے نمٹنے کی تحریک دلاتا ہے اور اپنے آخری تجزیئے میں علم معاشیات ایک مکمل سائنس ہے جس سے آگاہی رکھنے والا انسان معاشرے کے لئے انتہائی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارے ہاں جن موضوعات پر بہت زیادہ لکھا جاتا ہے ان میں معاشیات بھی شامل ہے۔ بلوچستان کی سیاست اور معاشیات پر ماما (صدیق بلوچ) کی دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب 2002ء اور دوسری کتاب2013ء میں شا ئع ہوئی۔معاشیات جن کا شعبہ نہیں ہو وہ میری طرح آئیں بائیں شائیں ہی کرتے ہیں لیکن ماما ایسے نہیں تھے انہوں نے آج کے کمرشل تعلیمی نظام میں نہیں بلکہ اس وقت اس شعبے میں ماسٹرز کیا تھا جب تعلیم پرتجارت کے سائے اتنے گہرے نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کیا تھا اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر آ پ صحافت سے وابستہ ہوں، آپ کے پاس اپنے اہداف ہوں، آپ معاشرے کے نچلے ترین طبقے سے لے کراعلیٰ اشرافیہ تک سب کے رویوں کے نبض شناس ہوں تو آپ کے اندر کا انسان آپ کو بیٹھنے نہیں دے گا وہ آپ کو متحرک رکھے گا اورماماساری زندگی نہ صر ف متحرک رہے بلکہ اوروں کے لئے بھی تحریک کا باعث بنے رہے۔
اپنے سے جونیئرساتھیوں کے لئے تحریک، اپنے بچوں اور خاندان والوں کے لئے تحریک،اپنے ارد گرد رہنے والے پڑھے لکھے بے روزگاروں کے لئے تحریک۔ اس کی گواہی وہ لوگ بھی دیں گے جو ماما سے اختلاف رکھتے ہیں۔ میں ماما کے بہت قریبی دوستوں کو بھی جانتا ہوں جن کے لئے ماما کی ہر بات حکم کا درجہ رکھتی اور ان کے مخالفین کو بھی جو ان کے مرنے تک ان کے ناقد رہے لیکن اپنے پرائے، حامی مخالف سب اس بات کی گواہی دیں گے کہ رانی باغ(سریاب) سے انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں پرچہ (آزادی) نکالنے کی بجائے اگر وہ کراچی میں بیٹھ کر کمانا چاہتے تو وہ بہت کچھ کما سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے لیاری کے ساتھ بھی اپنا تعلق قائم رکھا اور ایک بلوچ کی حیثیت سے بلوچستان کا حق بھی اداکیا۔ جو لوگ ماما کو اس بات کا طعنہ دیتے رہے کہ وہ گوشہ نشین رہے انہیں یا ددلانے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی سے اس وقت علی الاعلان وابستہ رہے جب جبر کا عالم یہ تھا کہ محض اس بات پر لوگ گرفتار ہوجاتے تھے کہ آپ نے ون یونٹ توڑنے کا مطالبہ کیونکر کیا۔وہ صحافت سے وابستہ ہوئے تو پھر سیاست سے گوشہ نشینی فرض عین تھا۔
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
ماما (صدیق بلوچ) بطور معاشی ماہر، بطور سماجی دانشور اور بطور قلم کار قوموں کے عرو ج و زوال کی کٹھنائیوں سے آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی بھی قوم، ملک یا معاشرے کی معیشت اور سیاست کس قدر اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وہ اس بات کا بھی ادراک وا یقان رکھتے تھے کہ اگرکسی قوم، ملک یا معاشرے کی معیشت اور سیاست کا کنٹرول اس قوم، ملک یا معاشرے کے اپنے ہاتھوں میں نہ رہے تو اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مضامین میں بلوچستان کی دیہی معیشت کو خو د کفیل کرنے کی تجاویز شدومد کے ساتھ شائع ہوتی رہیں لیکن توجہ کون دیتا؟کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ”جیتے جی ایک بھی اچھا انسان ہمیں دکھائی نہیں دیتا اور ہمارے مرے ہوؤں میں کوئی بھی برا انسان نہیں“
میں جب بھی کسی ذہین و فطین شخص کی موت کی خبر سنتا ہوں جس نے کسی بھی حیثیت سے سماج کی بہتری اور خوشحالی کے لئے کام کیا ہو تو مجھے پتہ نہیں کیوں یہ شعریاد آجاتا ہے کہ ”عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن ……یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ“ ماما پر گو کہ کوئی سنگ زنی نہیں ہوئی لیکن کیا یہ طرز عمل پتھر برسانے سے کم ہے کہ ان جیسے سینئر صحافی تو راندہ درگاہ ٹھہرتے ہیں جوصحافت کو بطورمشن اپناتے ہیں اوروہ لوگ جو صحافت میں تعلقات بنانے اور محض کاروبار کے لئے آتے ہیں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
ماما کے ساتھ ہماری سیاسی جماعتوں اور ہمارے صحافیوں کا رویہ محض وقت گزاری والا رہا یہ مان لینا چاہئے۔کیوں؟ کیونکہ ان سے جوبھی ملتا وہ اسے تحریک دلاتے کہ ”تم معاشرے کے جس بھی شعبے میں جس بھی حیثیت سے ہو اسے اپنے لوگوں کے لئے مثبت طریقے سے بروئے کار لاؤ“ اس کا عملی ثبوت انہوں نے خود دیا کہ بلوچستان میں آزادی اخبار کی خصوصیت یہی ہے کہ جو بھی سینئر صحافی بے روزگار ہوتا ہے اس کے لئے آزادی کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ ان کے اخبار میں اداریئے اور شذرے سے لے کر آخری چھپنے والی سنگل کالمی تک آپ کو بلوچستان بولتا ہوا محسوس ہوگا۔ وہ بلوچستان کی سیاست قیادت کو بلوچستان کے سیاسی اور سماجی منظرنامے سے لاتعلق رہنے سے باز رکھنے کے لئے اپنی تحریر اور تقریر کے ساتھ کوشاں رہے۔
کراچی کے ایک ہوٹل میں ناشتے کی ٹیبل پر ان کے ساتھ مجھے میری وہ بحث آج تک یاد ہے جب میں نے ان سے تین چار تیکھے قسم کے سوالات کئے تو وہ چپ چاپ اٹھے، میں سمجھا وہ ناراض ہوگئے ہیں اور ابھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ انہیں کس طرح مناؤں مگر اگلے دو منٹ بعد وہ کپ ہاتھ میں تھامے واپس آکر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ پتہ نہیں کپ میں چائے تھی، کافی یا پھر دودھ لیکن مجھے یاد ہے کہ وہ کافی دیر تک کپ ہاتھ میں تھامے مجھے اپنے بعض مضامین، اداریوں، پشتون قیادت کے ماضی، حال اور مستقبل، بلوچستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر سمجھاتے رہے۔
میں اس دن سچ میں ان کی علمیت کا قائل ہوگیا۔ عام طو رپر ہمارے صحافی، دانشور اور لکھاری جب تک حوالے کے لئے کتابیں اور دستاویزات نہ دیکھیں ان کی بات چیت اعدادوشمار سے عاری رہتی ہے لیکن ماما کی خداداد صلاحیتوں میں ان کے تجزیے اور خبر کا پوسٹ مارٹم کرنے والی حس کے ساتھ ساتھ حافظہ بھی کمال کا تھا۔ وہ مجھے اس مالی سال کے دوران بلوچستان کی پی ایس ڈی پی میں شامل ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اعدادوشمار کے ساتھ فر فر اپنا موقف سمجھاتے رہے کہ پیسہ تو بلوچستان میں بے شمار ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر عام بلوچ کیوں پانی جیسے بنیادی ضرورت کے لئے بھی ترستا رہتا ہے۔ وہ بلوچستان کے معدنی ذخائرکے بارے میں کمال کی معلومات رکھتے تھے۔ کون سی معدنی دولت کب، کہاں کس کے دور حکومت میں دریافت ہوئی، اسے نکالنے کے لئے کیا مشکلات پیش آئیں اس پر سیاسی قیادت کا موقف کیا رہا اور وہ کہاں کھڑی رہی سب کچھ انہیں ازبر تھا۔
صحافتی کیریئر کا آغا زا نہوں نے ڈان کے ساتھ بطور ٹرینی سب ایڈیٹر کے کیا، ٹرینی سے مکمل سب ایڈیٹر بنے اور دیگر عہدوں پر بھی کام کیا اس دوران عامل صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ وابستہ رہے اور مسلسل دو مرتبہ کے یوجے(کراچی یونین آف جرنلسٹس) کے صدر بھی رہے۔ ڈان کے ساتھ ان کی وابستگی ڈھائی عشرو ں پر محیط ہے لیکن ہم جیسے لوگوں کے لئے ان کی عزت اور افتخار کی وجہ ڈان سے وابستگی نہیں بلکہ بلوچستان میں صحافت کو نئی ڈگر پر ڈالنے کی وہ تحریک ہے جس میں جان محمد دشتی، صدیق بلوچ اور انور ساجدی جیسے چند نام ہی جدید اور معاصر مدیروں میں وجود رکھتے ہیں۔
بلوچستان کو پاکستان کی مین سٹریم میڈیا میں کل بھی پذیرائی نہیں تھی آج بھی بلوچستان کے لئے کوئی پذیرائی نہیں۔ بیورو آفسز میں بیٹھے ہوئے بیورو چیفس کی صوبے اور صوبے کے لئے کوئی ”کنٹری بیوشن“ نہیں اصل کنٹری بیوشن بلوچستان کی اپنی صحافت کی ہے جس کا تذکرہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے بغیر ادھورا اور نامکمل ہے۔ گوکہ بدلتے ہوئے حالات میں کتاب بینی اور اخبار بینی کم ہوتی جارہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کا ہر فرد اس کم ہوتے رجحان کے تدارک میں اپنا حصہ ڈالے اور آزادی و بلوچستان ایکسپریس کے باقاعدگی کے ساتھ مطالعے کو اپنا فرض عین بنائیں کیونکہ ماما کے خواب کو حقیقت کار وپ دینے کاایک طریقہ یہی ہے کہ انہوں نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی ہے اس کی مضبوطی میں ہم اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کریں اور اپنا حصہ ڈالنے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہ لیں۔