کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبے میں سوئی گیس کے پریشر کے مسلے پر حکومت اور اپوزیشن ایک ہوگئے،مسئلہ کے مشترکہ حل پر زور دیتے ہوئے اپوزیشن اراکین نے کہا کہ پچاس سال میں بلوچستان سے کتنی گیس نکلی اس کاکوئی حساب کتاب نہیں ہے،گیس لوڈشیڈنگ کے دوران مرنے والوں کامقدمہ حکومت یاسوئی گیس کمپنی کیخلاف ہونا چاہئے، ایک طرف گیس نہیں ملتی اوردوسری جانب بل ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے کے آرہے ہیں.
ایم ڈی سوئی گیس کمپنی کو طلب کیا جائے۔ صوبائی وزراء نے کہا کہ جو گیس پائپ لائنیں 40سال پہلے بچھائی گئی تھیں وہ اب تک چل رہی ہیں، کوئٹہ میں باقی ملک کے مستردشدہ گیس میٹرزلگائے جارہے ہیں،جو ہواسے بھی چلتے ہیں،گیس میٹرززبردستی لگانے سے امن وامان کامسئلہ ہوسکتاہے، وزیر اعلی بلوچستان نے اعلی حکام سے بات کرکے سردیوں میں گیس کی پریشر کامسلے حل کرایا۔
بدھ کے روز ا سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت نصف گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف ملک سکندرایڈووکیٹ کوئٹہ میں گیس پریشر کی کمی پر عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گیس پریشر کا مسئلہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے اخلاقیات اور قوانین کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جو وسائل جہاں سے نکلیں پہلا حق اس علاقے کا ہے جہاں سے یہ وسائل نکلیں لیکن گیس کے معاملے میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ انتہائی سنگین مذاق کیا جارہا ہے، کوئٹہ زیارت، قلات، مستونگ اورپشین کو چھوڑ کر پورے صوبے میں گیس ہے ہی نہیں اور جن علاقوں کو گیس دی گئی ہے.
وہاں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے کہنے کو تو کوئٹہ میں جنرل منیجر سوئی سدرن گیس کمپنی کا دفتر قائم کیا گیا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ اگر آپ کو ایک نٹ بھی درکار ہو یا چند فٹ پائپ بھی درکا ر ہو تو اس کے لئے کوئٹہ آفس بے اختیار ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کا ہیڈ آفس کراچی کی بجائے کوئٹہ میں قائم کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کے جو مسائل ہیں وہ بہتر طریقے سے حل ہوں انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے کوئٹہ کے تما م ایم پی ایز نے ایس ایس جی سی ایل اور کیسکو حکام کے ساتھ ڈپٹی کمشنر اور سی سی پی او کی موجودگی میں پانچ گھنٹوں کی طویل ملاقات کی جس میں گیس کمپنی کے حکام کاعذر یہ تھا کہ یہاں ٹمپرنگ ہوتی ہے۔
ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گیس کمپنی کے حکام کا یہ کہنا کہ یہاں ٹمپرنگ ہوتی ہے اس لئے ہم گیس فراہم نہیں کررہے یہ بذات خود ایک جرم ہے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ٹمپرنگ میں ملوث چند صارفین کی سزا صوبے کے تمام لوگوں کو دی جائے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 1950ء کی دہائی میں ہمارے صوبے سے گیس دریافت ہوئی تب سے لے کر اب تک کتنی گیس کمپنیاں لے کر گئی ہیں.
تیل و گیس کمپنیوں کے پاس اس کا کوئی حساب کتاب نہیں 1984ء میں جا کر کوئٹہ کو پہلی بار گیس ملی لیکن آج بھی صوبے کے اکثر علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں جن علاقوں میں گیس کی سہولت موجود ہے وہاں پریشر کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوچکا ہے ذرا سی سردی ہو تو گیس کی فراہمی ہی بند کردی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہحالیہ سردی کے دوران لوگو ں کو گیس نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس دوران گیس پریشر میں کمی بیشی کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے رہے جن میں کئی گھرانے اجڑ چکے ہیں اس کے باوجود منتخب نمائندوں اور حکومت نے عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اانہوں نے تو بیان تک دینا گوارا نہیں کیا کوئٹہ سے منتخب ہونے والے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے بھی دو ماہ بعد کوئٹہ کا رخ کیا.
انہوں نے کہا کہ گیس پریشر میں کمی سے ہونے والی اموات کا مقدمہ سوئی سدرن گیس کمپنی یا پھر کس کے خلاف درج ہونا چاہئے اور ان حادثات سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کون کرے گا۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی نے گیس پریشر میں کمی کے خلاف گیس دفتر کے باہر احتجاج دھرنا دیا پاکستان میں روزانہ 31سو ملین کیوبک فٹ گیس پیدا ہورہی ہے تاہم بلوچستان کو 170ملین کیوبک فٹ فراہم کی جارہی ہے۔
کوئٹہ میں گیس نہ ہونے کے باوجود لاکھو ں روپے کے بل صارفین کو بھیجے جارہے ہیں سیکرٹری پٹرولیم اور جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کو ایوان میں طلب کرکے ان سے اوور بلنگ سے متعلق پوچھا جائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اوور بلنگ کا خاتمہ کرکے گیس پریشر میں کمی کے باعث پیش آنے والے حادثات میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو شہداء کے برابر معاوضہ دیا جائے۔
چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو نے کہا کہ شدید سردی میں ہم اپنی بقاء کے لئے گیس استعمال کرتے ہیں لیکن پورے ملک نے دیکھا کہ حالیہ دنوں جب سردی کی ایک شدید لہر آئی تو کمپنی نے گیس کی فراہمی ہی بند کردی یہ عمل سراسر بدنیتی پر مبنی تھا بلوچستان کی گیس کاٹ کر باقی صوبوں کو دی گئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئٹہ اور پشین کے ایم پی ایز نے دھرنا دیا اور احتجاج کیا توہمارے دھرنے کے بعد مغرب سے پہلے پہلے گیس بحال ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ بلوچستان کو آج بھی کالونی کی طرز پر چلایا جارہا ہے بلوچستان کو آج بھی دل سے تسلیم نہیں کیا گیا یہاں کے لوگوں کی شہریت تسلیم نہیں کی گئی اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم یہاں ایوان میں اور ہمارے وزیراعلیٰ مرکز میں جا کر گیس پریشر کی بھیک نہ مانگتے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی قلت کے دوران اگر پنجاب کہتا ہے کہ وہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرے گا پھر باقی صوبوں کو گندم دے گا تو ہماری حکومت کیوں یہ نہیں کہتی کہ جب تک ہمیں گیس نہیں ملتی ہم آپ کو گیس نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گیس کے ساتھ ساتھ شدید سردی میں بجلی بھی دس پندرہ دنوں تک غائب رہی اور بیس بیس دنوں تک ہمارے علاقوں کے ٹرانسفارمرز کی مرمت نہیں ہوئی صوبائی حکومت اورا نتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ برفباری کے دوران مسلم باغ سے ایک شخص انفرادی حیثیت سے اٹھ کر سینکڑوں لوگوں کو ریسکیو کرتا ہے انہیں شیلٹر فراہم کرتا ہے اور دوسری جانب انتظامیہ اور حکومت فیل ہوجاتی ہے آج دن تک پہاڑی علاقوں کے راستے بند ہیں۔
ٹویٹر پر بڑے بڑے دعوے کرنے والی حکومت ناکام ہے ہمیں ان سے کوئی امید اور توقع نہیں اس لئے ایوان کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو مرکز میں جا کر وزارت پٹرولیم کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائے یا پھر منسٹری حکام کو یہاں کوئٹہ طلب کیا جائے تاکہ تمام صورتحال ان کے سامنے رکھی جائے کیونکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے افسران کو عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں ان کی تمام توجہ صرف اپنی پروموشن تک محدود ہے۔
کمپنی اپنے انہی افسران کو پروموشن دیتی ہے جو ریکوری لا کر دیں اور بلوچستان میں حالت یہ ہے کہ جو لائن لاسز پورے ملک کا مسئلہ ہے کمپنی اپنے وہی لائن لاسز بلوچستان سے میٹر ٹمپرنگ اور دیگر حوالوں سے پوری کررہی ہے کمپنی کو اپنے لائن لاسز پور ے کرنے کے لئے بلوچستان سے مال غنیمت ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قلات سے دریافت ہونے والی گیس کے حصول کے لئے لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے لیکن ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا جارہا منسٹری حکام آئیں تاکہ ہم یہ تمام معاملات ان کے سامنے رکھیں۔
ایچ ڈی پی کے چیئر مین صوبائی وزیر کھیل وثقافت عبدالخالق ہزارہ نے گیس پریشر میں کمی پر ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دو ماہ قبل تحریک انصاف کے رہنماء جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کوئٹہ آئے تھے ان کی آمد سے دو دن قبل ہی گیس پریشر کوئٹہ میں بحال کردی گئی تھی اور اس دوران گیس پریشر میں کمی کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی وزیراعلیٰ ہاؤس میں صوبائی حکومت، اتحادی جماعتوں کے اراکین کی ان سے ملاقات کے دوران میں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو تجویز دی کہ وہ کم سے ہر مہینے میں ایک مرتبہ کوئٹہ شہر کا دور ہ کریں اور اگر دورہ نہیں کرسکتے تو کم ا ز کم اپنے دورے کی افواہ ہی پھیلائیں تاکہ شہریوں کو ریلیف مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات میں متعلقہ محکموں کے حکام کو بلایا گیا جنہوں نے گیس پریشر میں کمی کی وجہ ٹمپرنگ اور شارٹ فال کو قرار دیا گزشتہ چالیس سال سے کوئٹہ شہر میں بوسیدہ پائپ لائنیں بچھی ہوئی ہیں اکثر علاقوں میں گیس اور پانی ایک ہی پائپ لائن سے آتے ہیں سوئی سدرن گیس کمپنی اس طویل عرصے میں نہ کوئی پائپ لائن تبدیل کرپائی ہے اور نہ ہی کمپنی کے پاس کوئی ایسا آلہ موجود ہے جس سے ا س بات کا تعین ہوسکے کہ یہاں سے گیس کی لیکج ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹمپرنگ کرنے والوں کو روکنا متعلقہ محکمے کی ذمہ داری ہے عوامی نمائندوں کی نہیں اگرکوئی ٹمپرنگ کررہا ہے تو اسے روکا جائے بجائے کہ پورے علاقے کے لوگوں کو گیس سے محروم کیا جائے انہوں نے پنجاب سے مسترد ہونے والے میٹرز کی کوئٹہ میں تنصیب پر بھی تشویش کااظہار کیا اور کہا کہ میٹرز گیس استعمال نہ ہونے کے باوجود بھی چل رہے ہوتے ہیں جو صوبے کے عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے زبردستی میٹر نصب کرنے سے امن وامان کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ برفباری میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندان کوئٹہ کا رخ کررہے تھے تاہم جب وہ خضدار پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ کوئٹہ کے ایم پی ایز گیس پریشر میں کمی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور یہ سن کر وہ واپس کراچی چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ 2030ء تک ہم پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے جارہے ہیں تاہم جہاں لوگوں کو زندگیاں بچانے کے لئے گیس میسر نہیں ہوگی وہاں کون آئے گا۔
انہوں نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو تجویز دی کہ وہ ایک علاقے کو رول ماڈل بنائے جہاں سے ریکوری زیادہ آئے تاکہ باقی لوگوں کو بھی بقایہ جات کی ادائیگی کے لئے تحریک دی جاسکے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں طرز حکمرانی کا بحران ہے ملک میں اتنی اموات دہشت گردی کے واقعات میں نہیں ہوئیں جتنا ایک سال کے دوران بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر آنے والے حادثات میں ہوئیں قانون کی حکمرانی اور گورننس نہ ہونے سے بلوچستان روز بروز زوال پذیر ہے صنعتی ترقی، خواندگی کی شرح پستی کی جانب جارہی ہے ہسپتالوں میں 25کروڑ کی جعلی ادویات کی موجودگی سے حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے صوبے میں ہر طرف مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
سوئی سدرن گیس بلوچستان کے عوام کی ملکیت اور ہمارا بنیادی حق ہے 1952ء میں سوئی سے نکلنے والی گیس نے 1970ء تک پاکستان کی91فیصد ضروریات کو پورا کیا جس کے بعد سندھ اور کے پی کے سے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے بلوچستان کا پیداواری حصہ 21فیصدہوگیا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد گیس بلوچستان کی ملکیت ہے 3لاکھ27ہزار کیوبک فٹ سے زائد گیس بلوچستان پیدا کررہا ہے اس کے باوجود بلوچستان کے 17انجینئرز سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بحال نہیں کئے جارہے اور اپنی بحالی کے لئے وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
کیونکہ وہاں بیٹھے لوگوں کو پتہ ہے کہ صوبے میں موجود قیادت حساب کتاب، معاملات، آئین اور قانون سے بے خبر ہے انہیں زبانی باتوں اور دعوؤں اور وعدوں سے بہلایا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستا ن جیسے غریب اور پسماندہ صوبے نے ملک کی صنعتوں کو21ہزار ارب روپے کی سبسڈی اور مراعات دی ہیں انہوں نے کہا کہ جیسے ہر کالا پتھر کوئلہ نہیں ہوتا ویسے ہر نکلنے والی گیس بھی صنعتوں کو آباد نہیں کرسکتی بلوچستان سے نکلنے والی گیس ہائی ٹمپریچر گیس ہے۔
بلوچستان میں گیس پریشر میں کمی سے متعلق صوبائی حکومت وفاق کو ایک مراسلہ تک نہیں بھیج سکی۔حکومت 44ارب روپے کی ایل این جی برآمد کرنے جارہی ہے جس سے صنعتوں کو گیس فراہم کی جائے گی اور کچھ حصہ صوبوں کو بھی دیا جائے گا جب تک گیس پر دسترس صوبے کے پاس نہیں ہوگی معاملات ایسے ہی رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی یہ مقدس اسمبلی متفقہ فیصلہ کرے کہ قلات سے دریافت ہونے والی گیس بین الاقوامی نرخ کے مطابق ہی فروخت کی جائے گی۔
بلوچستان اسمبلی کو اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا یہ بحران اگلے چند سالوں میں مزید گھمبیر شکل اختیار کرسکتا ہے۔اس موقع پر ثناء بلوچ نے تجویز دی کہ گیس کا معاملہ انتہائی اہم ہے جبکہ ہماری قرار دادوں کے حوالے سے بھی وفاق کی جانب سے آگاہ نہیں کیا جارہا لہٰذا اس مسئلے کو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایاجائے۔
صوبائی وزیر نور محمددمڑ نے کہاکہ شدید سرد موسم میں یوں تو صوبے کے مختلف علاقے متاثر ہوئے تاہم سب سے زیادہ زیارت کے عوام متاثر ہوئے کیونکہ وہاں پر انتہائی شدید سردی پڑی اور ایسے میں وہاں پر گیس پریشر نہ ہونے کے برابر تھا صارفین باقاعدہ بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں مگر انہیں گیس فراہم نہیں کی جارہی شدید سرد موسم میں زیارت میں گھروں اور دفاتر میں سردی سے بچنے کے لئے ایندھن کا متبادل انتظام کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گیس پریشر کے حوالے سے اس ایوان میں میری قرار داد بھی منظور ہوئی عوام مجبور ہو کر عدالت میں بھی گئے اب جا کر کہیں گیس کا پریشر کچھ بہتر ہوگیا ہے انہوں نے تجویز دی کہ مستقبل میں کسی بھی سنگین صورتحال سے بچنے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔
وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گیس کا مسئلہ حکومت اور اپوزیشن کا مسئلہ نہیں بلکہ صوبے کے عوام کا مسئلہ ہے اس مسئلے پر 1952ء سے ہماری جنگ چل رہی ہے کہ ساحل اور وسائل پر دسترس اورصوبوں کو خودمختاری دے کر قومی اکائیوں کو مضبوط کیا جائے انہوں نے کہا کہ ملک میں سب سے پہلے بلوچستان سے گیس دریافت ہوئی لیکن بلوچستان کے لوگ سب سے آکر میں اس گیس سے مستفید ہوئے جو ظلم ہے ہم موثر قانون سازی کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ گیس پریشر میں کمی کامسئلہ آج کا نہیں بلکہ شروع دن سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے۔
وفاقی وزیر کو طلب کرکے مسئلے پر ایوان کی کمیٹی بنائی جائے جو ان مسائل پر ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے ڈیڑھ سال کے دوران صوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں گزشتہ بیس سے پچیس سالوں کے دوران وہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے کسی حکومت نے اتنے ہسپتال نہیں بنائے یونیورسٹیز کو اتنے فنڈز نہیں دیئے جتنے ہم دیئے۔ 85فیصد پی ایس ڈی پی ریلیز ہوچکی ہے ٹینڈرز جاری ہوچکے ہیں واٹر سپلائی، سڑکوں کی تعمیر، ایگری کلچر سمیت دیگر شعبوں میں ترقی کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت میں ذاتی مراعات اورمفادات کے لئے نہیں بیٹھے اگر ہم مطمئن نہیں ہوئے تو جانے میں دیر نہیں لگائیں گے حکومت بلوچستان کے اجتماعی مفاد میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے اور بات چیت کے لئے تیار ہے انہوں نے اوور بلنگ پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس میرے گھر کا بل ایک لاکھ ساٹھ ہزار آیا تھا جس پر میں نے اس مسئلے کو ایوان میں بھی اٹھایا اب بھی میرے گھر کا بل تین لاکھ تک جاپہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مزدور جس کی تنخواہ 25ہزار روپے ہے اس کا 21ہزار روپے کا بل آیا ہے اووربلنگ اہم مسئلہ ہے اس اہم مسئلے پر مشترکہ سٹینڈلینا چاہئے۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ گیس بلوچستان کی ملکیت ہے اورملک میں سب سے پہلے گیس ہمارے صوبے سے دریافت ہوئی جس سے پورا پاکستان مستفید ہوتا رہا اب وقت آگیا ہے کہ وفاق کے سامنے ڈٹ کر اپنے وسائل حاصل کرنے کی بات کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں پارلیمانی اکثریت سے حکومتیں تو قائم کی جاتی ہیں اور یہ اپنی حکمرانی کو طول دینے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں سندھ کے حکمرانوں نے عوام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کئے جب کے پی کے نے بجلی کی رائلٹی سے متعلق جنگ لڑی اس کا نتیجہ این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کی صورت میں نکلا مگر بلوچستان کے حکمران وفاق سے اپنی بات منوانے کی بجائے اقتدارکو مضبوط کرنے میں لگے رہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ کمزور ترین حکومت جنہیں کبھی گجرات کے چوہدری اور کبھی کراچی کے اتحادی بلا کر اپنی بات منواتے ہیں بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی جو وفاق میں حکومت کی اتحادی جماعتیں ہیں اگر وہ وفاق میں گیس پریشر کا مسئلہ، مہنگائی، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے مسائل اٹھائیں اور دوٹوک موقف اپنائیں کہ اگر مسئلہ حل نہیں ہوگا تو ہم حکومت کو خیر باد کہہ سکتے ہیں یا اتحاد کو ختم کرسکتے ہیں تب یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
وفاقی سیکرٹریز اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام کو بلانے سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں گیس پریشر میں کمی اور اضافے سے لوگ مررہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن اصغر علی ترین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے سردی میں بلوچستان کے لوگ گیس اورگرمیوں میں بجلی سے محروم رہتے ہیں۔
پشین کے علاقے لمڑان میں حالیہ برفباری سے ایک خاتون سردی کے باعث جاں بحق ہوگئیں اس کا مقدمہ کس کے خلاف درج کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومتی وزراء اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اعتراف کرتے ہیں کہ گیس پریشر نہیں ہے حالانکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کرائیں کیونکہ وفاق سے جب تک دو ٹوک انداز میں بات کرنے کا اختیار اور صلاحیت حکومت کے پاس موجود ہے نہ کہ اپوزیشن کے پاس۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ گیس پریشر میں کمی کے باعث جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو ایک مہینے کے اندر معاوضہ ادا کیا جائے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ شدید سرد موسم میں کوئٹہ سمیت صوبے کے سرد علاقوں کے عوام شدید مشکلات کا شکار رہے گیس پریشر میں کمی بیشی کے باعث کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
بلوچستان کے مسائل پرانے اور گھمبیر ہیں ملک میں سب سے پہلے گیس بلوچستان سے دریافت ہوئی لیکن سب سے آخر میں بلوچستان کو گیس ملی 1984ء تک کوئٹہ کے صرف چند علاقوں میں گیس کی سہولت فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود اب بھی شہر کے کافی علاقوں میں گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ بدستور موجود ہے شدید سرد موسم میں ایک جانب گیس غائب رہی تو دوسری جانب ایندھن کے متبادل انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے عوام احتجاج پر مجبور ہوئے یہاں تک کہ بزرگ خواتین اور بچے بھی احتجاج کرتے رہے آج بھی اپوزیشن کی ریکوزیشن پرگیس کی صورتحال پر غور کیا جارہا ہے۔
صوبائی حکومت بتائے کہ اس ڈیڑھ ماہ کے دوران وفاقی حکومت کو اس حوالے سے کتنے خطوط لکھے گئے صوبائی حکومت گیس سمیت صوبے کے دیگر مسائل پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اپوزیشن کو کسی حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا جارہا انتہائی غریب عوام کو لاکھوں روپے کے بل بھیجے جارہے ہیں زیارت جیسے شدید سرد علاقے میں گیس پریشر نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے لئے جانیں بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔
چند ہزار کی آبادی کو حکومت مفت نہ سہی تو سبسڈی پر گیس فراہم کرسکتی ہے ملک میں انڈسٹری کو بھی سبسڈی پر گیس فراہم کی جارہی ہے زیارت میں جونیپر کے جنگلات کو بچانے کے لئے سبسڈی پر گیس کی فراہمی کی ضرور ت ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیارت کے علاوہ صوبے کے باقی علاقوں کے90فیصد عوام گیس کی سہولت سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نے میرے حلقے میں واقع شیخ زید ہسپتال میں کینسر وارڈ کا افتتاح کیا حلقے کے نمائندے کی حیثیت سے مجھے بھی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر وہاں پر میرے لئے نہ تو کسی نشست کا اہتما م کیا گیا تھا اور نہ ہی ایک ایم پی اے کا پروٹوکول دیا گیا۔
افتتاحی تقریب ایک سیاسی جماعت کی تقریب کا منظر پیش کررہی تھی انہوں نے کہا کہ میں حلقے کا منتخب نمائندہ ہوں اور حلقے کے عوام نے بی این پی کو مینڈیٹ دیا اور ہم اپنے عوام کی خدمت کررہے ہیں وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت اپوزیشن کواہمیت دے۔ بعدازاں چیئر مین آف پینل کے رکن نے اجلاس آج صبح گیارہ بجے تک کے لئے ملتوی کردیا۔