|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2020

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی نے صوبے یں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے سمیت چار قراردادیں منظور کرلیں جبکہ دو توجہ دلاو نوٹسز نمٹا دئیے اپوزیشن اراکین کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں کورم کی نشان دہی پر اجلاس 24فروری تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔

جمعہ کے روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس زنجو کی زیر صدارت مقررہ وقت سے دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بی این پی کے رکن اسمبلی محمد اکبر مینگل نے ثناء بلوچ، اختر لانگو اور اپنی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے تاحال کوئی جامع حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے بے روزگار افراد اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں احساس محرومی اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

لہذٰا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے کا ازالہ ممکن ہوسکے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے عوام جہاں زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہیں وہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں بلوچستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں ہمیشہ صوبے کی ترقی خوشحالی اور بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کی بلوچستان کی اور یہاں کے عوام کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ بہتر پالیسیاں نہ ہونا ہے حکومت اس سلسلے میں ایسی پالیسیاں بنائے جس سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو بدامنی مایوسی افراتفری اور جرائم کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔

مایوسی کے شکار نوجوان منشیات کی جانب راغب ہوتے ہیں بے روزگاری کے باعث صوبے میں کئی ایک مسائل نے جنم لیا ہے پوری دنیا میں حکومتیں اپنے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کو اولین ترجیح دیتی ہیں بے روزگار نوجوانوں کو الاونس ملتا ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہمارا صوبہ جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر اس کے وسائل یہاں کے عوام کی خوشحالی اور انہیں روزگار کی فراہمی کی بجائے انہیں وفاق قرضوں کی ادائیگی کی بات کرتا ہے جس پر ہماری صوبائی حکومت کو سخت احتجاج کرتے ہوئے وفاق کو مراسلہ بھیجنا چاہیے تھا مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی خوشحالی اور عوام کو روزگار کی فراہمی کے لئے صوبائی حکومت ایک ماڈل پالیسی بنائے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے بہتر پالیسی کے ذریعے اپنے نوجوانوں کو اپنے صوبے میں ملازمتوں کے ساتھ ان کے لئے بیرون ممالک روزگار کے مواقع تلاش کیے یہی وجہ ہے کہ ملک کی کل آبادی کا صرف 12فیصد صوبہ کے نوجوان ملک کے کل زرمبادلہ کا 23فیصد ملک بھیج رہی ہے مگر ہمارے یہاں نہ تو ٹیکنیکل ایجوکیشن کی توجہ دی گئی اور نہ بے روزگاری کے خاتمے کے لئے اقدامات کیے گئے۔

صوبے میں 18لاکھ سے زائد نوجوان ہیں سی پیک کے دوسرے فیز سے صوبے کے لئے زیادہ حصہ لے کر نوجوانوں کو ملازمتوں فراہم کی جائے بی این پی کے محمد اکبر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں بے روزگاری ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے مگر صوبے میں حکومت کے پاس بے روزگاری کے خاتمے کے لئے کوئی پالیسی نہیں صوبے میں امن وامان کے قیام اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لئے بھی روزگارکی فراہمی ضروری ہے سرکاری ملازمتوں کے ساتھ زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبوں کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے سی پیک کے تحت نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں اور وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹہ پر عملدرآمد کیلئے وفاق سے بات کی جائے تو 40ہزار ملازمتیں پیدا کی جاسکتی ہیں۔

بعد ازاں ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے 2012ء میں سرہ غوڑگئی کے مقام پر زرغون ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیاگیاتھا جسے گزرے 8سالوں کا عرصہ گزرچکاہے۔

حکومت کو مذکورہ اسکیم سے اب تک کروڑوں آمدن بھی حاصل ہوئی ہے لیکن تاحال مذکورہ اسکیم غیر فعال ہے اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم بھی ہے،جس کی وجہ سے الاٹیزبے چینی اور مایوسی کا شکار ہیں لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتاہے کہ وہ زرغون ہاؤسنگ اسکیم کے جلد ازجلد فعال کرنے کو یقینی بنائے تاکہ عوام کا سرکاری ہاؤسنگ اسکیم پر اعتماد بحال اور ان میں پائی جانے والی بے چینی اور مایوسی کا خاتمہ ممکن ہوقرارداد کی۔

موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرے نے کہاکہ گزشتہ 18ماہ سے ہاؤسنگ اسکیم پر کام نہیں ہورہاحکومت ہاؤسنگ اسکیم کوفوری پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جامع اور موثر اقدامات اٹھائے، بعدازاں قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی گئی۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی میر زابد ریکی نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ مستونگ تک کوئٹہ ایئرپورٹ اور کچلاک تک پشین شاہراہ پر ہائی ٹریفک کی روانی کے باعث آئے روز رونماہونے والے حادثات کے نتیجے میں لوگوں کو مالی وجانی نقصان اٹھاناپڑرہاہے اس لئے ضروری ہے کہ مذکورہ شاہراہوں کو دورویہ کی جائے۔

لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتاہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرکے مستونگ تا کوئٹہ اور ایئرپورٹ تا کچلاک اور پشین شاہراہوں کو دورویہ کرنے کو یقینی بنائے تاکہ آئے روز رونماہونے والے حادثات میں کسی حد تک کمی ممکن ہوسکے، قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے زابد ریکی نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان بلوچستان اسمبلی سے منظور ہونے والی قرار داد وں پر عملدرآمد کا نوٹس لے کیونکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے بے روزگاری کا خاتمہ کرے۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان دورہ دالبندین کے موقع پر واشک کا دورہ کرکے پسماندگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے کہاکہ بلوچستان میں انفرانسٹرکچر کے شعبہ میں بہت کام ہواہے شاہراہوں کو دورویہ کرنے سے متعلق وفاقی حکومت سے بات کی ہے اور اس کی فزیبلٹی پر کام ہورہاہے اپوزیشن ایک سال بعد قرار داد لائی ہے،بعدازاں قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی گئی۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن عبدالواحد صدیقی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مراسلہ نمبر2013(12)1ء آر سی آئی آئی 70/محررہ 29اگست2013ء کے تحت کونسل نے اپنے 191ویں اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ الفاظ کی تصحیح کیلئے تمام یونیورسٹیوں ٹیکسٹ بک بورڈز اور زارت تعلیم میں نصابی اور غیر نصابی کتب وغیرہ میں اصلاح شدہ الفاظ استعمال کئے جاسکیں۔

لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتاہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مراسلہ میں درج بالا اسلامی اقدار اور ارکان کی اصلاح شدہ الفاظ کی ترویج کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ہدایت پر فوری طورعملدرآمد کو یقینی بنائے اجلاس میں زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے اراکین اسمبلی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں زبانوں اور ثقافتی دن منانے کی حد تک محدود نہیں ہونا چایئے، ہمارے کلچر اور روایات کی ایک تاریخ ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کی عزتیں اور اقلیت محفوظ تھے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے شہریوں کو دنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

انہوں نے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں جو اراکین اپنی مادری زبانوں میں بات کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے مترجم رکھے جائیں۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ دنیا میں مادری زبانوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ، ترقی و ترویج کیلئے قانون سازی ہونے کے باوجود بلوچستان میں بلوچی، براہوئی، پشتو، ہزارگی اور دیگر مادری زبانیں جو ہمارا قومی اثاثہ ہیں انکے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں مادری زبانوں میں نصاب تعلیم رائج کرکے بچوں کو تعلیم فراہم کی جائے تاکہ بچے بہتر انداز میں سمجھ سکیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی جہاں دنیا ڈیجیٹلائزشن کی طرف جارہی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ تمام زبانوں پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ زبانوں کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی اہمیت ہے اس میں مقالمے، تحریر و تقریر کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں زبانوں کے ترجمعہ کیلئے مترجم رکھے جائیں اس موقع پر انہوں نے بلوچی، براہوئی اور پشتون میں اشعائر بھی پڑھے۔ اجلاس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن قادر علی نائل ہزارگی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مادری زبانوں کی اہمیت و افادیت سے متعلق اپنا خیالات کا اظہار کیا۔

اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصراللہ زہرے نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں 2014میں بلوچستان اسمبلی نے ایک ایکٹ منظور کرتے اسکولوں میں پرائمری تک مادری زبانوں میں نصاب تعلیم کو رائج کیا اس سلسلے میں مادری زبانوں پر مبنی نصاب بھی تیار کیا گیا اور کچھ اسکولوں میں طلباء و طالبات کومادری زبانوں میں تعلیم کا درس کودیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اس قانون میں مزید ترمیم کرکے میٹرک تک مادری زبان میں نصاب تعلیم رائج کرے،صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے بھی مادری زبانوں کی اہمیت اور افادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبان مربوط رابطہ کاری کا زریعہ ہے انھوں نے کہا کہ ہمیں چایئے کہ اپنے روایات، رسم و رواج کو ملوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی پاسداری کریں، جمعیت علماء اسلام کے رکن سید فضل آغا نے کہا کہ تمام زبانیں قابل قدر ہیں۔

انہوں نے بھی مادری زبانوں میں نظام تعلیم رائج کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی زبانوں کی افادیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرایڈوکیٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزراء سلیم کھوسہ، مٹھا خان کاکڑ، زمرک خان اچکزئی، عبدالخالق ہزارہ اور مبین خان خلجی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ گزشتہ روز اپوزیشن ارکان کے احتجاج سے قبل اور پھر ہمارے دھرنے میں آکر ہم سے بات چیت کی تاہم ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا احتجاج کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں ہم نے پہلے دن واضح کیا تھا کہ حکومت اپنا کام کرے مگر ہمارے حلقوں میں مداخلت نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ارکان کے حلقوں میں مداخلت کی روایت نہیں مگر یہاں اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں مداخلت کی جارہی ہے، سرکاری فنڈز سے حکومتی پارٹی کے لوگوں کو نوازا جارہا ہے جو جمہوری روایات کے برعکس ہے ہمیں احتجاج یا ریلی نکالنے کا کوئی شوق نہیں یہ سب کچھ مجبوری کے تحت کررہے ہیں۔

ہمارا احتجاج اصولی جمہوری اور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہے ہم ڈیڑھ سال تک حکومت کو اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کیلئے کہتے رہے مگر ایسا نہ ہوا اس ایوان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سنجیدہ ارکان موجود ہیں اور ہم اپنے عوام کے حقوق کیلئے احتجاج کررہے ہیں جو حکومتی وعدوں پر عملد درآمد حلقوں میں مداخلت کے خاتمے تک جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں شکست کھانے والوں کو حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی ناانصافی ہے ہمارا احتجاج مسائل کے حل تک جاری رہیگا۔ پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کے اراکین اپنے حلقوں میں حکومتی مداخلت اور فنڈز کی عدم فراہمی کیخلاف 24فروری کو ایک مرتبہ احتجاج کرینگے ہمارا احتجاج اصولی ہے جو حکومتی عملدرآمد تک جاری رئیگا۔

صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں بھرپور ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور اپوزیشن ارکان بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے حلقوں میں تاریخی کام کرائیں ہیں تو وہ بتائیں کہ ان منصوبوں کیلئے فنڈز کہاں سے آئے یقینی طور پر صوبائی حکومت نے یہ فنڈز فراہم کئے ہیں صوبائی حکومت تمام حلقوں میں یکساں ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے اپوزیشن ارکان کم از کم اس بات کو سرائیں۔

اس موقع پر نور محمد دمڑ اور ارکان کے درمیان سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر کے مختلف سڑکوں کی توسیع و بحالی کیلئے ترخہ قبرستان تا بلوچستان یونیورسٹی، سبزل روڈاور سریاب روڈ کے متاثرین کو ان کے زمینوں کے معاوضوں کی ادائیگی مارکیٹ ریٹ کے مطابق فی فٹ کے حساب سے کی گئی ہے یا کی جارہی ہے۔

لہذا متاثرین کو اب تک مارکیٹ ریٹ کے مطابق فی فٹ کے حساب سے کتنی ادائیگی کی گئی ہے تفصیل فراہم کی جائے، توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ ڈپٹی کلکٹر کی جانب سے سڑکوں کی توسیع کیلئے حاصل کی جانیوالی اراضی کیلئے 300سے 1800 روپے تک مختص کی گئی ہے جبکہ مذکورہ اراضی کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے مطابق 10ہزار سے زیادہ ہے، حکومت ادائیگی سے متعلق مقررہ نرخوں پر نظر ثاثی کرے کیونکہ سڑکوں کے توسیع سے معاوضے کی ادائیگی کے دوران ہزاروں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سبزل روڈ فیز ون کے علاقے میں تقریباً زرعی اراضی موجود ہے جبکہ فیر ٹو میں تجارتی مراکز، پیٹرول پمپس، فلائٹس اور کمرشل ایریا موجود ہے تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فیز ٹو کو بھی زرعی اور غیر آباد ایر یا ظاہر کیا گیا ہے۔ بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ کوئٹہ پیکج کے تحت شہر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، حکومت کے فیصلے میں تعصب نظر نہیں آنی چائیے، انہوں نے کہا کہ 15سالوں کے دوران کوئٹہ بیوٹیفکیشن پلان اور مختلف مدات میں 75 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں تاہم اس دوران کسی سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پیکج پر عملدرآمد کو روک کر متاثرہ افراد کو اعتماد میں لیا جائے کہ آیا وہ اس نرخ پر اپنی اراضی دینے کو تیار ہے کہ نہیں۔

بی این پی کے رکن اسمبلی اختر حسین لانگو نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مذکورہ اراضی کی مارکیٹ ریٹ 14ہزار سے 20ہزار روپے پر فٹ ہے لیکن تحصیلدار نے اراضی کی قیمت 600روپے فی فٹ مقرر کی ہے جسے بعد میں بڑھا کر 1100روپے فی فٹ مقرر کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ لوگوں لینڈ ریکوزیشن ایکٹ کے تحت زبر دستی ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کی بجائے دوبارہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق انہیں معاضہ ادا کیا جائے۔

پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہا کہ حکومت 12ہزار روپے فی فٹ زمین فروخت کرکے اسی زمین سے ملحقہ علاقوں میں 800روپے فٹ زمین حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو عوام سے زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھوسہ منڈی سے سریاب روڈ تک لنک روڈ کی توسیع منصوبے میں دونوں جانب سڑک کیلئے اراضی خریدی جائے۔

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ سبزل روڈ پر ایک فٹ اراضی کی قیمت 25ہزار روپے تک ہے مارکیٹ ریٹ کاجائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سریاب روڈ کے مکینوں کو چوبیس گھنٹوں میں گھر اور دکانیں خالی کرنے کیلئے نوٹس جاری کیا گیا جو قابل مذمت ہے۔

صوبائی وزیر ریونیو میر سلیم کھوسہ نے توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 45فیصد لوگوں نے پیسے وصول کئے ہیں اور اس سلسلے مین اب تک 77کروڑ روپے سے زائد رقم ادا کی جاچکی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اربوں روپے شاہراوں کی توسیع پر خرچ کررہی ہے تاکہ شہریوں کو سہولیات میسر اسکیں، کچھ لوگوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر ریونیو سلیم کھوسہ اور اپوزیشن اراکین اسمبلی ڈپٹی کمشنر /کلکٹر کے ساتھ بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔

بعد ازاں توجہ دلاؤ نوٹس نمٹا دی گئی اجلاس میں بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے اپنی توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے طلباء و طالبات اور ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں کچھ عرصے سے احتجاج پر ہیں حکومت نے بولان یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ اینڈ سائنسز کے ملازمین اور طلباء و طالبات کے مطالبات کے پیش نظر ایک ترمیمی ایکٹ تیار کیا ہے جو گزشتہ ز کئی ماہ سے زیرالتواء ہے حکومت کب تک مذکورہ ترمیمی مسودہ قانون اسمبلی میں پیش کریگی۔

انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد یونیورسٹی کے انتظامی اختیارارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں تاہم گزشتہ 10سالوں کے دوران اختیارات کی منتقلی کیلئے حکومتوں نے قانون سازی کیلئے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نہیں چاہتی کہ طلباء و طالبات میں موجود اضطراب کا خاتمہ ہوسکے جو مسودہ قانون 3گھنٹوں میں بنایاجاسکتا ہے لیکن حکومت اس کیلئے 3ماہ کا وقت مانگ رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت گورنر اور اداروں کے درمیان رابطہ کاری کا فقدان ہے ایسی صورتحال میں حکومت 3سال تک ترمیم نہیں کرپائے گی۔ وزیراعلیٰ کی پارلیمانی سیکرٹری ماجبین شیران نے کہا کہ حکومت 3ماہ کے اندر بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا مسودہ قانون ایوان میں پیش کرکے منظوری لے گی اجلاس میں جمعیت علماء السلام کے رکن اسمبلی یونس عزیز زہری نے جھالاوان میڈیکل کالج کی تعمیر کرنے کیلئے فنڈز مختص ہونے کے باوجود تعمیراتی کاموں میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے پر گزشتہ دور حکومت میں ایک ارب 28کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوا ہے جس کی تحقیقات کرائی جائے بعد ازاں توجہ دلاؤ نوٹس نمٹادی گئی۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی مکی شام لعل اور بی این پی کے رکن اسمبلی ٹائٹس جانسن نے فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ایوان کے اندر پلے کارڈ اٹھاکر احتجاج کیا۔

،اس موقع پر مکی شام لعل موقف اختیار کیا کہ ہمارے حلقوں میں نادار لوگوں کو فنڈز اور طلباء کو اسکالر شپس حکومتی پارٹی کے اقلیتی رکن کے ذریعے فراہم کی جارہی ہے اور وہ لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا بھی دعویٰ کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ہمیں مسلسل نظر کرکے ایک ہی رکن کو نوازنا ہے تو ہمارے یہاں بیٹھنے کی کوئی فائدہ نہیں ہے جمعیت کے مکی شام لعل اور بی این پی کے ٹائٹس جان سن نے احتجاجاً ایوان سے واک آوٹ کیا، اسپیکر نے صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو اورصوبائی وزیر محکمہ مال سلیم کھوسہ اور اپوزیشن رکن یونس عزیز زہری کو دونوں اقلیتی اراکین سے مذاکرات کیلئے بھیجا جو انہیں مناکر واپس ایوان میں لے آئے۔

اس موقع پر صوبائی وزیر سلیم کھوسہ نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن نے میرے حلقے میں لوگوں میں بھی غیر سرکاری اداروں کے ذریعے امدادی رقوم تقسیم کئے ہیں وہ خود غیر سرکاری اداروں سے رابطہ کرکے فنڈز لے رہے ہیں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چایئے۔

بی این پی کے رکن اسمبلی ٹائٹس جانسن نے کہاکہ حکومت مداخلت کیخلاف وہ جلد پارٹی کے سربراہ سے مشاورت کے بعد اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوجائیں گے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن دنیش کمار نے اپوزیشن اراکین کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی بھی رکن اسمبلی کے حلقے میں مداخلت نہیں کی ہے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ نے خود کرسمس کی تقریب شرکت کی۔