|

وقتِ اشاعت :   August 3 – 2014

پاکستان بھر میں اس وقت فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ 54 لاکھ کے قریب ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 8.5 حصہ بنتا ہے، یا کراچی کے برابر کا ایک ورچوئل شہر، اور بلاشبہ فیس بک پاکستان کی سب سے بڑی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے، تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے دلیل دی جارہی ہے کہ یہ ویب سائٹ وقت کا ضیاع یا معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے مئی 2013ءکے عام انتخابات میں فیس بک کی سیاسی اہمیت ثابت کردی تھی، جبکہ متعدد کمپنیاں، کاروبار، بڑی و چھوٹی صنعتیں بھی اپنے روزمرہ کے کام کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کررہی ہیں، کیونکہ اس طرح ان کی پہنچ معاشرے کے ہر طبقے کے فرد تک ہوجاتی ہے، یعنی شہری سے لے کر دیہی آبادی تک جوکہ رابطے، شیئرنگ، رشتے بنانے، رائے بنانے اور یقیناً صرف تفریحی مقاصد کے لیے اس کا استعمال کرتی ہے۔ تھری جی کے متعارف ہونے اور مارکیٹ میں سستے ترین اسمارٹ فونز کی بھرمار کی مدد سے ٹیلی کمپنیاں فیس بک اور ٹوئیٹر تک اشتہارات کی رسائی سے لاکھوں کمارہی ہیں، صارفین ان ویب سائٹس تک مفت رسائی حاصل کرپاتے ہیں جبکہ فیس بک نے ایک منفرد حیثیت دسمبر 2013ءمیں اس وقت حاصل کرلی جب اس نے اپنی آفیشل زبانوں میں اردو کو بھی شامل کرلیا۔ پاکستانی معاشرے میں فیس بک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور 2013ءکے اعدادوشمار میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس ویب سائٹ پر کسی چیز کو پوسٹ کرنے سے ایک مقامی صارف تک وہ معلومات تک بارہ سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ مارک زیوکربرگ کا یہ نیٹ ورک پاکستان میں طویل عرصے تک راج کرنے والا ہے۔ فیس بک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ اس پلیٹ فارم پر کسی اچانک اور مستقل پابندی کا امکان نظر نہیں آتا۔ تاہم فیس بک غلطیوں سے پاک بھی نہیں، اور چند انتہائی سنجیدہ معاملات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے یہ سوالات اٹھے ہیں کہ کس طرح حکومت اور معاشرے کو اس ویب سائٹ کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ فیس بک پر دھمکیوں، بلیک میل اور ہراساں کئے جانے کی شکلوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی اقسام، کسی فرد کی نجی تفصیلات کا ہیکنگ کے ذریعے غلط استعمال بہت عام ہوگیا ہے جس کا نتیجہ حقیقی دنیا میں سنگین خطرات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ فیس بک پر نفرت انگیز تحریریں بھی عام ہوچکی ہیں اور اس طرح کے مواد کا بڑا حصہ اردو یا رومن اردو رسم الخط میں ہے، جن کے خلاف فیس بک پر شکایت درج کرانے کا میکنزم ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ کسی پوسٹ کے شیئر ، لائک یا بس کسی دوسرے فرد کی نیوز فیڈ پر آنے سے بھی مذہب کی توہین کے الزامات پر گرفتاریاں بھی ہوجاتی ہیں، جس کی مثال ملتان کی بہاولدین ذکریہ یونیورسٹی کے وزٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کیس ہمارے سامنے ہے ۔ فیس بک پر ہی اس طرح کے الزامات پر گجرانوالہ میں حال ہی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کے نتیجے میں احمدی برادری کی دوبچیاں اور ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں۔ اسی طرح کالعدم گروپس جیسے سپاہ صحابہ سے لے کر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فیس بک کو رابطوں، نظم اور بھرتیوں کے لیے استعمال کرنا ایک بہت بڑا حقیقی خطرہ ہے۔ ان ابھرتے مسائل پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اور انٹرنیٹ اسٹیک ہولڈرز کو یوٹیوب جیسی مکمل پابندی جیسے ردعمل کا خدشہ ہے۔ اس وقت ملک میں سائبر کرائمز کے حوالے سے قوانین موجود نہیں اور پرانا و دقیانوسی الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس(ای ٹی او) 2002ءکو استعمال کیا جارہا ہے، جس کے تحت فیس بک پر مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ زیادہ کرنہیں سکتے۔ سائبر کرائمز پر نیا قانون ایک سال سے اسمبلیوں سسے منظوری کا منتظر ہے، جس میں بھی ان مسائل پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ بھی فیس بک کے مسائل کو حل کرنے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں، ان قوانین کے استعمال(یا غلط استعمال) کو کیسے ممکن بنایا جائے، اس سے کس کو فائدہ ہوگا اور کون ہدف بنے گا، کیا بائیں بازو کی جانب جھکاﺅ رکھنے والے، سیکیولر گروپس، مذہبی اقلیتوں اور ریاست کے ناقدین سمیت دیگر کو ہی بلاک اور آن لائن پابندیوں کا سامنا ہوگا؟ فیس بک کی سرگرمیوں پر تحقیقات کے لیے کیا میکنزم اپنایا جائے گا؟ کیا ان ہی افراد کو ریاست کی جانب سے سوشل نیٹ ورک کے ورکنگ ریلیشن شپ کا اختیار دیا جائے گا جنھوں نے عوام کو یوٹیوب سے دور کررکھا ہے؟ سوشل میڈیا پر مذہب کی توہین کے الزامات پر دھمکیوں کا سامنا کرنے والوں کے لیے کیا کچھ کیا جائے گا؟ فیس بک متعدد خوبیوں کی حامل سائٹ ہے جو سوشل نیٹ ورک کی دنیا پر راج کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسے اطلاعات تک عام رسائی، اطلاعات کے پھیلنے کی رفتار اور دیگر تاہم ان خوبیوں کا پاکستانی معاشرے کے حکمران طبقوں سے براہ راست تصادم ہوگیا ہے، جیسے مذہبی خیالات کی آزادی اور ان کے اظہار وغیرہ نمایاں مثالیں ہیں، پاکستانی معاشرے میں اس پلیٹ فارم سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر پرائیویسی اور سیکیورٹی معاملات میں۔ جب تک ہر ادارے کلاس روم سے لے کر پارلیمنٹ، دفاتر سے عدالتیں اور دیگر تک فیس بک کے مسائل کو ہرسطح پر اٹھایا نہیں جاتا اور ان کی روک تھام نہیں ہوتی اس وقت تک یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہماری قوم کے لیے نقصان کا ہی باعث بنے گی۔ یہ نقصان سخت گیر قوانین، ذاتی فوائد اور نظر انداز کئے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے یا اس سے بھی برا یعنی قومی سطح پر اس نیٹ ورک پر پابندی کی صورت میں بھی، تاہم اس طرح کی پابندی کے منفی اثرات کا اندازہ صرف اس ناقابلیت سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ اس کی وجہ سے پیدا ہو گی۔