چوبیس سالہ نعمت اللہ سبزل روڈ کوئٹہ کا رہائشی ہے جو ہر روز اپنی موٹر بائیک پر پانی کی بوتلیں لاد کر اپنے گھر والوں کے لئے صاف پانی بھر کر لے جاتاہے نعمت اللہ کہتے ہیں کہ” ان کے گھر میں محکمہ واسا کا نل تو موجود ہے لیکن اس میں گزشتہ چار سالوں سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں آیا ” نعمت اللہ کاکنبہ بڑا اور ایک جگہ رہنے کی وجہ سے انکے گھر میں پینے کے صاف پانی کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔
انکے مطابق پانی کا ایک ٹینکر گیارہ سو کے قریب ہے جو کہ وہ ہر دوسرے یا تیسرے دن نہیں خرید سکتے جسکی وجہ سے وہ ہر روز گھر سے کچھ فاصلے پر قائم ٹیوب ویل سے پانی بھر کر لاتا ہے جہاں سے تمام اہل محلہ پانی لے جاتے ہیں۔ادرہ شماریات کے 2017 ء کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کی آبادی چھبیس لاکھ ہے۔
جامعہ بلوچستان کے ارتھ اینڈ اینوائرمینٹ کے ڈین ڈاکٹر دین محمد کہتے ہیں کہ 2000ء سے پہلے کوئٹہ میں زیرے زمین پانی کا لیول 400 سے 600 فٹ تھا جو کہ اب بڑھ کر 900 سے 1200 کے فٹ کے درمیان ہے جسکی وجہ کوئٹہ میں زیادہ ٹیوب ویلز ہیں۔
تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کہتے ہیں کہ پی پی ایچ آئی، واسا اور ایریگیشن ڈیپارٹمینٹس شہریوں کو پانی مہیا کرنے کے لئے محنت کر رہے ہیں اور حکومت غیر قانونی ٹیوب ویلز کے خلاف پالیسی مرتب کر کے ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔