بلوچستان میں ایک ریلوے اسٹیشن کا نام ’’شیلاباغ‘‘ ہے جو صدیوں پہلے کی اُس رقاصہ کے نام پر رکھا گیا جو دن بھر تھکے ہارے مزدوروں کو اپنے تھرکتے اوربل کھاتے اعضاء کے نرت بھاؤ سے فریفتہ کر دیا کرتی تھی۔ اُس کے پیروں میں بندھے ہوئے گھنگھرو جو کہ ایک بلند مقام پربنے ہوئے سٹیج پر جچے تلے قدموں کے ساتھ آگے بڑھتی جہاں بجلی کا نام و نشان تک نہیں تھا، مٹی کے چراغ جلا کرتے تھے۔ ان ہزاروں چراغ کی لو میں ’’شیلا‘‘ بارش کے پانی کی طرح پہاڑ کے پہلو سے نمودار ہوتی اور پہاڑی ندی کی طرح ٹپکتی بوندوں کی تال پر ہوا میں سرسراہٹ میں کسی پراسرار نغمے کی لے پر گھنگھروں کی جھنکار سے اپنے رقص کا آغاز کرتی ۔بمبئی، لاہور اور قصور سے منگوائے سازندے سازوں کی تاروں کو چھڑتے طبلے اور ڈھولک کی تھاپ لگاتے اور ایک تارے کو تار کی انگلی سے اشارہ کرتے تو پورا راگ چھڑ جاتا، پہاڑی رقص کا نغمہ ابھرتا، سازوندوں کے سروں سے نکلتا، بھیروی کا الاپ رقاصہ کے قدموں سے لپٹ جاتا اور شیلا وجد میں آ جاتی اور پھر دم بخود کر دینے والا رقص وجود میں آتا جو ہزاروں مزدوروں کو سحرزدہ کر دیتا۔ دن بھر کی تھکن سے چور بدن اپنے نیم مردہ جسموں میں زندگی کی حرارت محسوس کرتے، رقص ختم ہوتا تو ہزاروں مزدوروں کی تھکاوٹ کو نیند کا بہانہ مل جاتا اور وہاں صرف ایک بدن تھکن سے چور ہو کر رہ جاتا اور وہ شیلا کا بدن ہوتا۔ بلوچستان میں خوجک سرنگ کی تعمیر کا آغاز ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ سائبیریا کی ہوائیں وسطی ایشیا کو روندتی ہوئی قندھار(افغانستان) سے گزرتی ہوئی چمن سے آگے خوجک سرنگ کے قریب پہنچ رہی تھیں۔ یہ 1890ء کا سرد ترین موسم تھا، سردیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں، پہاڑوں پر برف جم رہی تھی، برصغیر ایران، افغانستان اور چین کے کونے کونے سے آئے ہوئے مزدوروں میں ٹائیفائیڈ کی وباء پھوٹ پڑی اور ایک ایک آنے دو دو آنے کی مزدوری کے لیے گھروں کو چھوڑ کر برف زدہ چٹیل پہاڑوں کی سنگین فصیلوں میں گھرے مزدور ایک اک کر کے مرنے لگے۔ اس جان لیوا موسم نے بالآخر 800سے زیادہ مزدوروں کی جان لے لی۔ بلوچستان میں تاریخی سرنگ کی تعمیر کا کام 14اپریل 1888ء کو شروع کیا گیا یہ سرنگ شانزلہ اور شیلا باغ (بلوچستان) میں واقع ہے جو کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 113کلومیٹر خواجہ عمران کے پہاڑی سلسلے پر واقع ہے اس سرنگ کوخوجک ٹنل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سرنگ کی لمبائی تقریباً5کلومیٹر یعنی 3.912میل (2415میٹر) درمیان میں دونوں اطراف سے مخروطی شکل میں ہے، اس سرنگ کی تعمیر کے لئے ہرات، قندھار، غزنی، کابل، سیستان، سوات، بنوں، جلال آباد، ملتان، سکھر، خیرپور، حیدر آباد، ڈیرہ غازی خان، کشمیر، تربت، قلات، مکران، کافرستان، عرب، پرشین، گلف، زنجی بار اور ہزارہ کے علاوہ سکھ برادری کے کارپینٹر، بنگال سے 65کے قریب مستری حاصل کئے گئے۔ اس سرنگ کی تعمیر کے لئے 6449روشنی دینے والے چراغ منگوائے گئے اور اس کی تعمیر کے لئے 80ٹن پانی ٹینکر کے ذریعے منگوایا گیا۔ یہ سرنگ دنیا کی چار بڑی سرنگوں میں شمار ہوتی ہے جس کی تعمیر پر 97لاکھ 24ہزار 426اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔ سرنگ کی تعمیر کے وقت چونکہ بجلی کا کوئی نظام نہ تھا مٹی کے تیل سے چراغ جلا کر کام کیا گیا۔ گریٹ گیم کا آغاز ڈیڑھ صدی پہلے ہو چکا تھا، سبی، کوئٹہ، چمن ریلوے لائن کو جلد از جلد تعمیر کا مقصد ریلوے لائن کو قندھار (افغانستان) پہنچانے کا تھا۔ اس منصوبے کا آغاز اسی سال شروع ہوا جس سال دہلی کے لال قلعہ کی سرخ اینٹوں کے حصار میں سفید کمرے کی سیاہ مہری پر لیٹے ہوئے بہادر شاہ ظفر کے سامنے ناشتے کے ٹرے میں اس کے دو بیٹوں کے سر پیش کئے گئے تھے اور جس سال اسے گرفتار کر کے رنگون کے زندان میں ایک چارپائی پر پیروں میں نیل ڈال کر سلا دیا گیا تھا، ہندوستان فتح ہو چکا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کا وہ شعر آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔
کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
افغانستان میں ریلوے لائن بچھا کر جدید مواصلاتی نظام کے ذریعے برطانوی فوجوں کو روس کی فوجوں سے پہلے وہاں پہنچنا تھا مگر ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعددنیا ہی بدل گئی، کئی مرتبہ ورلڈ آرڈر تبدیل ہو چکا تھا، پرانی عالمی طاقتوں کی جگہ نئی عالمی طاقتیں معرض وجود میں آئیں، خلافت عثمانیہ کا سورج انقرہ اور استنبول کے عجائب گھروں میں ڈوب گیا۔ اس زمین کے کونے کونے پر چمکنے والا تاج برطانیہ کا سورج برطانوی نیشنل میوزیم کی زینت بنا مگر اس وقت 154سال گزرنے کے باوجود ریلوے لائن چمن (افغانستان) تک جو کہ پاکستان کی آخری سرحد ہے ایک کلومیٹر بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ 5ستمبر 1891ء میں شانزلہ اور شیلا باغ کے مقامات پر بننے والی سرنگ کا ملاپ ہو جانا تھا اور ریلوے پٹڑی پر آخری بولٹ لگائے جانے تھے مگر مقررہ وقت پر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔دنیا کی سب سے بڑی سرنگ مکمل ہو رہی تھی، سرنگ کے انجینئر نے مایوسی کے عالم میں اونچی پہاڑی سے چھلانگ لگا دی جبکہ عین اسی وقت سرنگ کے دونوں اطراف کے مزدوروں نے آخری دیوار بھی گرا دی اور سرنگ مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سرنگ کے انجینئرز کو دراصل ذمہ داری کا احساس تھا اور فرض شناسی تھی اسے خودکشی کی تمنا نہ تھی لیکن ان کے اندازے کے مطابق سرنگ دونوں اطراف سے مقررہ وقت میں آپس میں شاید نہیں مل رہی تھی۔ شیلا باغ سطح سمندر سے 5494 فٹ بلندی پر ہے جبکہ اس سے پہلے قلعہ عبداللہ 5189فٹ، گلستان 4883فٹ، بوستان5154فٹ اور کوئٹہ 5599فٹ پر ہے ۔ کوئٹہ سے بوستان کا فاصلہ 33کلومیٹر، گلستان 82کلومیٹر، قلعہ عبداللہ 96کلومیٹر، شیلا باغ 112کلومیٹر جبکہ چمن 142کلومیٹر پر واقع ہے اور اس کی سطح سمندر سے بلندی 5394فٹ ہے۔ برطانوی حکومت کے دور میں اس سرنگ کی تعمیر کی وجہ سے تازہ پھل افغانستان سے براہ راست ریل کے ذریعے ہندوستان کی منڈیوں میں پہنچ جاتے تھے اور تجارت کا ایک وسیع دائرہ کار تھا۔ خوجک سرنگ کا کام 5ستمبر 1891ء میں مکمل کیا گیا اور اس کا کام جیسے پہلے ذکر کیا گیا 1888ء میں شروع ہوا۔1976ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس تاریخی سرنگ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے 5روپے کا نوٹ جاری کیا تھا جس کی پشت پر اس سرنگ کی تصویر نمایاں تھی بالآخر اس 5روپے کے نوٹ کو 2005ء میں بند کر دیا گیا۔ اس سرنگ سے گزرنے کے لئے چار لوکو موٹو انجن کا استعمال کیا جاتا تھا وہ انجن بارہ بوگیوں کے آگے اور دو انجن بوگیوں کے پیچھے لگائے جاتے تھے سرنگ کے درمیانی حصہ میں ایک خاص قسم کا گھڑیال نصب کیا گیا تھا جو کہ خطرے سے خبردار کیا کرتا تھا اور اس کی باقاعدہ آوازیں سنائی دیتی تھیں چونکہ سرنگ دونوں اطراف سے اونچائی پر تھی افغانستان کے شہنشاہ امان اللہ خان نے اپنے دور حکومت 1927ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ افغانستان سے 7ماہ کا دورہ کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی۔ برطانوی حکومت کے گارڈ باقاعدہ طور پر چمن بارڈر آئے ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ رہے ۔انہوں نے ریل کے ذریعے چمن سے کوجک (کوژک) سرنگ سے گزر کر کوئٹہ سے ہندوستان، مصر اور یورپ کا کامیاب دورہ کیا وہ اس سرنگ کی تعمیر سے بے حد متاثر تھے اور اس نایاب شاہکار سے انہوں نے افغانستان میں بھی اس نوعیت کے سرنگ اور ریلوے لائن کے منصوبے کے حامی تھے۔ نومبر 2005ء میں حکومت بلوچستان نے بھی ایک منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی تھی کہ افغانستان جانے کے لئے اس سرنگ کے درمیان سے دو طرفہ سڑک تعمیر کی جائے تا کہ ٹریفک اور رسل و رسائل میں آسانی پیدا ہو لیکن اس منصوبے پر اربوں روپے لاگت کی ضرورت تھی اور یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ 1889ء میں بلوچستان کے گورنر رابرٹ سنڈیمن تھے۔ بلوچستان میں ضلع ژوب کا نام فورٹ سنڈیمن رکھا گیا۔ گورنر سنڈیمن نے لارڈ لسن ڈونی کو طلب کیا تھا کہ وہ خان آف قلات سے ملاقات کرے جو کہ اس وقت ریاست قلات کا حاکم تھا اور خان کے نام سے موسوم تھے۔ بعد میں خان آف قلات کہلائے جانے لگے جو پاکستان بننے کے بعد بھی خان آف قلات کے نام سے آج بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ابھی بھی شاہی دربار ایوان قلات میں موجود ہے جو کہ پرانی طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے جو قابل دید ہے۔