|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2020

تربت:  عورتوں کے عالمی دن پر تربت میں ایچ آر سی پی کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے مختلف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، تربت میں 50ایکڑ پر مشتمل وومن انکلیو بنا رہے ہیں جس میں مختلف شعبے قائم کریں گے اس میں خواتین کو قانونی، میڈیکل، سائیکوسمیت دیگر حوالوں سے مفت تعاون فراہم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ حقوق حاصل کرنے کے لیئے اپنے حقوق کو سمجھ لینا اور ان کا صحیع ادراک لازمی ہے، بدقسمتی سے ہم نے اپنی 50فیصد آبادی کو غیر متحرک کردیا،انہیں صحیع مقام دینے کے بجائے ہمیشہ کمتر سمجھا گیا اس وجہ سے ہمارا معاشرہ انسانی ترقی میں بہت پیچھے ہے۔ ایچ آر سی پی کے زیر اہتمام ایس پی او، ایف اے پی،این آر ایس پی،اور رائزنگ یوتھ بلوچستان کے اشتراک سے ایس پی او کے ملا فاضل ہال میں عورتوں کے عالمی دن پر سیمینار میں مرد و خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

صوبائی وزیر زانہ میر ظہور احمد بلیدی نے کہاکہ مرد اور عورت ہر حوالے سے برابر ہیں اس سوچ کو پروان چڑھا کر ہم ایک پر امن ماحول اور خوب صورت معاشرہ بنا سکتے ہیں،حکومت بلوچستان صنفی امتیاز اور وومن امپاور منٹ کے حوالے سے کام کرنے میں سنجیدہ ہے، مختلف ادوار میں صوبائی حکومتوں نے عورتوں کو بااختیا ر بنانے کے لیئے کام کیئے مگر موجودہ حکومت کئی منصوبوں کو عملی شکل میں سامنے لانے کا پروگرام بنا چکی ہے جن کے صرف منصوبے فائل ہوئے تھے۔

تعلیمی پالیسی کے تحت صوبے کے 8ہزار پرائمری اسکولوں کو جینڈر فری اسکول بنانے جارہے ہیں ان میں ٹیچنگ اسٹاف خواتین کو تعینات کیا جائے گا اس سے نا صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ تعلیم میں بھی بہتری پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، تعلیم کی بہتری کے لیئے بہت سے منصوبے شروع کیئے گئے۔

انہوں نے کہاکہ صوبائی بجٹ میں تعلیم پر 75ارب روپے مختص ہیں،63ہزار اساتذہ صوبے میں کام کررہے ہیں لیکن تعلیم میں بڑی بہتری نظر نہیں آرہی اس لیئے صوبائی حکومت کو میں نے دور دراز ایریا اور مختلف علاقوں میں بند اسکولوں کو پرائیوٹ اداروں کے ساتھ مل کر فعال بنانے کا مشورہ دیا ہے اگر یہ منصوبہ روبہ عمل ہوا تو تعلیم کی بہتری میں بے حد مفید ثابت ہوگا،صوبے کے مختلف یونیورسٹیز کوگرانٹ دیاگیا جن میں تربت یونیورسٹی بھی شامل ہے۔

بطور فنانس کمیشن کے چیئرمین تربت یونیورسٹی میں شٹل سروس شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ تمپ،ہوشاپ اور دور دراز علاقوں کے طلبہ و طالبات کو پڑھنے کا موقع ملے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت صوبے کے مختلف اضلاع میں حکومت خواتین امپاورمنٹ کے لیئے کئی منصوبوں پر کام کررہی ہے جن میں وومن بزنس سینٹرز، وومن بازار، ورکنگ ہاسٹل کے منصوبے شامل ہیں جبکہ بے نظیر بھٹو شہید شیلٹر لس سینٹر بھی ان میں ایک منصوبہ ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہاکہ میرے لیئے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ہوشاپ انٹر کالج کا سنگ بنیاد رکھا جس کے20اسٹوڑنٹس اس سال سول انجنءئرنگ میں اپلائی کرچکے ہیں جب ہوشاپ کالج کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے خلاف کئی طرح کی باتیں کی گئیں یہاں تک کہا گیا کہ اس سے تعلیم کو نقصان پہنچے گا مگر آج ان کا ثمر ہمیں مل رہی ہے،انہوں نے کہاکہ ضلع کیچ کے114برطرف اساتذہ کی بحالی کا نوٹیفکیشن ایک ہفتے کے اندر ہو جائے گا۔

حکومت کا مانیٹرنگ کے لیئے اپنا ایک طریقہ کار ہے، تمام سرکاری ملازمین کو چاہیے کہ وہ اپنا فرض سمجھ لیں اور ڈیوٹی صحیع معنوں میں ادا کریں۔ سیمینار سے ماہر نفسیات ڈاکٹر تاج بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچوں میں باہمت عورتوں کی کمی نہیں، ڈاکٹر نگینہ بلوچ ہمت اور حالات کے ساتھ لڑنے والی بہادر خاتون کی سب سے بڑی مثال ہیں،وہ اس علاقے اور اپنی فیملی کے پہلے لیڈی ڈاکٹر ہیں، انہوں نے ہر طرح کے مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی فیملی میں عورتوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ معاشرے میں عورتوں کے حوالے سے ایک بہتر سوچ پروان چڑھانے میں نمایا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہاکہ کسی بھی معاشرے میں ترقی کو ناپنے کا معیار انسانی ترقی کی شرح ہے، ہمارے انسانی ترقی کی شرح بے حد کم ہے جو افسوس ناک ہے، گزشتہ بیس سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں دوران حمل شرح اموات کم ہونے کے بجائے مذید زیادہ ہوگیا، اسکولوں میں طالبات کے داخلہ کا شرح زیادہ نہیں ہوا جبکہ ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے، منشیات بڑی لعنت ہے جس نے معاشرے کو تباہ کردیا اس کا براہ راست ثر عورتوں پر پڑتا ہے۔

ڈاکٹر نگینہ بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ صرف ایک دن مخصوص رکھ کو سارا سال مظلوم عورتوں کو یاد نا رکھنے کا عمل کسی طرح حوصلہ افزا نہیں ہے،ہمارے معاشرے کی گہرائی میں جھا نکا جائے تو عورتیں بہت ساری مسائل میں گھری ہوئی ہیں حتی کہ کئی ایسے مسائل بھی ہیں جن کا ہم نام نہیں لے سکتے، ہمارے لیئے ایک بد قسمتی یہ ہے کہ عورت اپنا کردار ود ادا نہیں کرتی جب تک عورتوں کو خود سامنے آکر اپنے مسائل سے لڑنے اور حق کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت پیدا نہیں ہوگی ان کے مشکلات میں کمی بڑی مشکل ہے۔

سماجی رہنما گل افروز گل نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نامناسب رویے، صحت کے سہولیات کی فقدان اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 775جان سے ہاتھ دھوتی ہیں جبکہ روزانہ تقریبا36خواتین دوران حمل موت کا شکار ہوتی ہیں۔ضلع کیچ میں شہر کے علاوہ کسی بی ایچ یو میں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں حتی کہ ایل ایچ ویز بھی نہیں ہے۔

بیشتر عورتیں آج بھی ہسپتال آنے کے بجائے گھروں میں بچہ جنم دیتی ہیں جن کی مختلف وجوہات میں سے ایک اہم وجہ مردوں کا اجازت نا دینا ہے۔،عورتوں کی آبادی47فیصد کے قریب ریکارڈ ہوئی ہے ان میں مجموعی شرح خواندگی 24فیصد جبکہ دیہی ایریا میں یہ شرح کم ہو کر 15فیصد رہ جاتی ہے،اسکولوں میں طالبات کے ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ ہے، کیچ کے دیہی علاقوں میں پرائمری کے علاوہ کوئی مڈل یا گرلز ہائی اسکول موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ضلع کیچ میں جنسی ہراس منٹ سے لے کر عورتوں کو بہت سے تکالیف اور مشکلا ت کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عورتوں کی حالت اور حیثیت میں بنیادی تبدیلی لائے بغیر معاشرتی ترقی اور آگے بڑھنے کا عمل ناممکن ہے، خواتین کو سماجی اور سیاسی شعور دیا جائے تب جا کر وہ اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ رائزنگ یوتھ بلوچستان کے چیئر پرسن زرگل زبیر نے کہاکہ عورتوں کے معاملے میں اسلام کے آفاقی اصولوں کو چھوڑ کر ایک خودساختہ کلچر بنایا گیا ہے جس نے ہمیشہ عورتوں کا گھلاگھونٹ کر انہیں گھروں میں بند رکھا ہے۔

کم عمری کی شادی عورتوں کو زندگی کے خواہشات سے پرے رکھنے اور تعلیم سے دور رکھنے کا ایک اہم محرک ہے، کم عمری کی شادی انتہائی خطر ناک ہے،تعلیم کے بغیر عورت اپنا پہچان اور حیثیت نہیں بنا سکتی، تعلیم کے حصول کے لیئے سہولیات لازمی ہیں ہمارے اسکولوں میں صرف بلڈنگ موجود ہیں مگر سہولیات نہیں۔ سیمینار سیڈاکٹر سمی پرواز، فاطمہ منظور،گنجی علی محمد، حضرہ محمد بخش، روینہ گنگزار، صباء شکیل، جویریہ رحیم، ایڈوکیٹ گل بانو، سنیہ کریم اور حانی یونس نے خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ماہین وھاب اور زلیہ عصاء نے سر انجام دیئے۔