بچپن میں ہماری صبح کا آغازپی ٹی وی کی نشریات سے ہوا کرتی تھی جب اسکول جانے سے پہلے قریباً سات بج کر بیس یا پچیس منٹ پر پانچ منٹ کا کارٹون شو آتا تھا جس میں کبھی پنک پینتر یا دو کوؤں والے ہیکل اور جیکل کارٹون تو کبھی ہاہاہاہا۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔ہاہا۔۔۔۔کی آواز نکالتا سرخ اور نیلے رنگ کا پرندہ جو درختوں میں چھید کرتا پھرتا تھا دکھایا جاتا تھا۔۔۔وہ وقت یقیناً کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔۔۔ان ہی اوقات میں چھٹی والے دن ہم دس پندرہ منٹ کا الن ننھا بھی دیکھا کرتے تھے،اور شام کو کبھی سی سیم اسٹریٹ تو کبھی عینک والا جن دیکھتے تھے۔ اس وقت نہ ہمیں سیاست سے دلچسپی تھی نہ ہی ہمیں یہ معلوم تھا کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس پر پی ٹی وی کیا دکھاتا پھرتا ہے اور نہ ہی نو بجے کے بلیٹن میں ہمیں خبریں دیکھنے یا سننے کا شوق تھا۔۔اورہم جب اپنے نانا کے ہاں جاتے تھے تو ہماری نظریں ان کے براؤن کلر کے ریڈیو پر ہوتی تھیں جس پر اکثر ہم دو جملے سنتے تھے کہ ‘‘یہ بچہ کس کا ہے ’’،،،یا پھر ‘‘یہ بی بی سی لندن ہے’’۔۔۔۔ ہمیں ان باتوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی کہ یہ سب کیا ہے اور کیا ہورہا ہے اور نہ ہی ہمیں کبھی گھر سے یہ بتایا جاتا تھا کہ ملک میں یہ ہورہا ہے ملک میں وہ ہورہا ہے،،،مارشل لا کیا ہے۔۔ہڑتالیں کیا ہوتی ہیں ان سب سے ہم نا آشنا تھے بس کسی دور کی دھندلاتی یادوں کے دریچوں میں کچھ یاد ہے تو وہ یہ کہ بلوچستان سے واپسی پر ائیرپورٹ سے جب ہم اپنے گھر جارہے تھے تو عین گھر کے قریب ہی مجھے ٹیکسی کے شیشے سے اتنا ہی منظر نظر آیا کہ میرے ابو کو کچھ لوگ ڈنڈوں سے مار رہے ہیں اور ہم سب کو واپس جانے کا کہہ رہے ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ کرفیو ہے آگے جانے نہیں دے رہے اور ہم گھر سے قریب ہوتے ہوئے بھی واپس ائیرپورٹ سے آنے والے راستے کی طرف مڑے اور اپنی خالہ کے ہاں رات گذاری۔۔کرفیو کا لفظ میں نے پہلی بار ہی سنا تھا اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ کیا بلا ہے؟
سیاست،نعروں،ہڑتالوں سے نا آشنا بچپن ماہنامہ نونہال کی کہانیاں پڑھتے،حکیم سعید کے سفر ناموں میں خود کو ڈھونڈتے گذر گیا۔ بلوغت میں جب آئے تو اخبارات پڑھنے کا شوق بیدار ہوا۔۔آہستہ آہستہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ بھی آتی گئی۔۔چے گویرا اور نیلسن منڈیلاکا نام بھی ان ہی دنوں میں سنا اور ان ہی دنوں میں انقلاب فرانس اور خمینی اور ہٹلر کے قصے سننے کو ملے۔۔۔تامل باغیوں کی جنگ۔۔۔بلوچستان کا مسئلہ۔۔۔غزہ پر اسرائیلی جارحیت۔۔۔بھی ان ہی ادوار میں دیکھے اس سارے عرصے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ شوق مطالعہ بھی جاری رہا۔ اس دوران بہت سی چیزیں نئی نئی لگنے لگیں جیسے مشرف کا اقتدار۔۔۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت۔۔۔نائن الیون کا حملہ۔۔۔۔اسامہ بن لادن۔۔۔۔گوانتاناموبے اور ابو غریب جیل۔۔۔۔۔پھر ڈیرہ بگٹی کے حالات اور اکبر بگٹی کی شہادت۔۔۔چیف جسٹس کی فراغت اور بحالی۔۔۔۔۔۔۔الیکشن بھی دیکھنے کو ملے جن میں نظام بدلنے کے دعوے ،،لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے اور بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ نہ جانے اور کیاکیا۔۔۔لیکن حالات پھر بھی جوں کے توں رہے۔۔۔وقت تو بدلتا رہا بس حالات نہیں بدلے۔۔۔ لوڈشیڈنگ کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔۔۔خونریزی اور ہڑتالوں کا بھی سلسلہ تھم نہ سکا۔۔۔مہنگائی کا رونا پہلے سے سے زیادہ پیٹا جارہا ہے۔ صحافت میں جب صحافتی جوش پروان چڑھ رہا تھا تو کسی لیکچرار سے انقلاب لانے کے ان ہی کے لیکچر پر ایسا سوال کر ڈالا کہ انہوں نے جواب کے بجائے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ انقلاب کیلئے کیا اب مجھے جماعت بنانی پڑے گی۔
کبھی کبھار جب یورپی اور دیگر خلیجی ممالک کو دیکھتا تو خود سے یہ سوال کرتا کہ کاش ہم بھی وہیں پیدا ہوتے، جہاں پیدا ہوئے وہاں تو بچپن سے ایک ایسا انقلاب دیکھتے آرہے ہیں کہ جہاں بس برداشت اور صبر کرتے کرتے زندگی گزارنی پڑتی ہے یہی اصل انقلاب ہے اورفلاں کو مت بولو۔۔۔فلاں کے خلاف مت لکھو۔۔۔فلاں چیز پر بحث مت کرو۔۔۔۔یہی انقلاب ہے۔۔۔کہیں گولی چلے تو بھاگ جاؤ۔۔۔۔کسی کو کوئی تمہارے سامنے ماردے تو چھپ رہو یہی انقلاب ہے۔۔۔کوئی لڑے تو تم مت
لڑو۔۔۔کوئی گالی دے تو تم راستہ تبدیل کردو یہی انقلاب ہے۔۔۔پٹرول پمپ پر پٹرول بھرو تو اس کے پمپ سے کم آئے تو بات کرنے پر کوئی جواب نہیں آتا یہی انقلاب ہے۔۔۔بس میں کنڈیکٹر زیادہ پیسے طلب کرے اور چلانے پر اتارنے کی دھمکی دے یہی انقلاب ہے۔۔۔۔۔ کوئی کیا ،،کسی کا رہن سہن کیا۔۔۔کسی کی ثقافت کیا اسی کا نام انقلاب ہے میری زبان میری ہے تمہاری تمہاری اس کی زبان اس کی ہے اسی کا نام انقلاب ہے۔
یہ سب انقلاب دیکھتے اور سنتے سنتے آدھی عمر تو گذر گئی ہے باقی آدھی بھی چند ایک نئے انقلابی نعروں میں گزر جائے گی۔
جن میں باتیں ایسی ہونگی
انقلاب کا مطلب کیا
جھنڈا پکڑ ،اور قطار میں آ
دس ٹن کچرا پھیلائیں گے
انقلاب لائیں گے
چھٹیاں منانا ہے
تو انقلاب لانا ہے
بھول نہ جانا پھر پپا
انقلاب لیکر گھر آنا
آئیگا دنیا میں انقلاب بے مثال
میرے منھے ،میرے نونہال
وہاں سے انقلاب لائیں گے
کہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہاں سے لائے
ایک انقلابی
سب پہ بھاری
کپھے کپھے
انقلاب کپھے
اس انقلاب کو پانچ سال نہیں دسمبر تک لائیں گے