کرونا وائرس نے پڑوسی ملک ایران کے بعد زائرین کی شکل میں بلوچستان کا رخ کر لیاہے۔ اللہ تعالیٰ خودحفاظت کے انتظامات کرے اور ہم پر رحم کرے ورنہ ہمارے اعمال اس طرح کے نہیں کیونکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ہم نے خصوصاً محکمہ صحت بلوچستان نے اس بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اپناتے ہوئے اس کی روک تھام کے لئے انتہائی ناکافی انتظامات کررکھے ہیں۔ تفتان کی صورت حال کسی حد تک بہتر بتائی جاتی ہے جہاں پاک آرمی نے علاقے میں قدم رکھ کر انتظامات کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
جس سے یقین ہوچلا ہے کہ تفتان بارڈر کی حد تک انتظامات میں مزید بہتری آئے گی جبکہ ایک دوسری خبر نے محکمہ بلوچستان کے ناقص انتظامات بارے پردہ چاک کردیا جس کے مطابق شیخ زید ہسپتال میں کرونا وائرس سے متعلق محکمہ صحت کے 25سے زائد سٹاف کو محض”ایک گھنٹے“ کی ٹریننگ دی گئی بھلا ایک گھنٹے میں عملے کو کیا سمجھ آئے گی۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ محکمہ صحت وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہا جس کے سبب محکمہ صحت کی نا اہلی اور بے احتیاطی کی وجہ سے کرونا وائرس پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
شیخ زید ہسپتال میں قرنطینہ سینٹر قائم کرنے کا اقدام بھی درست نہیں تھا تفتان میں اس سینیٹر کے قیام کے بعد کوئٹہ میں اس کی ضرورت ہرگز نہیں تھی، سنجیدہ انتظامات یہ کیے جاتے کہ تفتان میں علاج معالجے کے بعد ان زائرین کو سڑک کے ذریعے نہیں بلکہ تفتان سے بذریعہ ہوائی جہاز دالبندین ائیر پورٹ سے لیکر انہیں اپنے اپنے صوبوں کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں رکھا جاتا جہاں پر انہیں بہتر طبی سہولیات دے کر اس موذی مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سنجیدگی دکھائی جاتی لیکن وفاقی محکمہ صحت اور وفاقی وزراء نے بلوچستان کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ صوبائی حکومت کے سر تھونپ دیا۔
جہاں صوبائی محکمہ صحت عرصہ چالیس سال سے بیس یا پچیس لاکھ افغان مہاجرین کو مہمان کے طورپر رکھ میزبانی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے صوبے کے تمام طبی سہولیات ان پر لٹاتی چلی آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام سرکاری ہسپتال تباہی کا شکار ہیں ان میں ڈسپرین کی گولی تک دستیاب نہیں چہ جائیکہ اس وائرس کی روک تھام کیلئے مناسب ادویات دستیاب ہوں۔ گزشتہ روز ایک سینیئر صحافی نے یہ انکشاف کیا کہ انہیں اپنے سٹاف اور کیمرہ مین کے بم دھماکہ کے بعد علاج معالجے کے لئے”ٹراما سینٹر سنڈیمن سول ہسپتال“ جانے کا اتفاق ہوا جہاں دستیاب سہولیات نہ ہونے کے بعد انہیں اپنے سٹاف کو سی ایم ایچ منتقل کرنا پڑا، اس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیاگیا۔
جہاں انہیں بہتر طبی سہولیات بہم پہنچائیں گئیں۔ بات یہ کہ ہمارے ”ٹراما سینٹر“کی یہ حالت ہو کہ جہاں سرجن ڈاکٹر خود یہ مشورہ دیں کہ آپ اپنے مریض کو یہاں سے کہیں اور منتقل کریں تو زیادہ بہتر ہوگا، اس سے بڑھ کر ہماری بد قسمتی اور نالائقی کیا ہوگی کہ سرجن ڈاکٹر مریض کے بارے میں یہ مشورہ دے اس بارے میں کارڈیک وارڈ کی ناگفتہ بہ صورت حال پر دو کالم تحریر کیے لیکن مجھے افسوس ہوا کہ ان کالمز کے بعد کوئی اقدامات دیکھنے کونہیں ملے بقول سینیئر صحافی کے وزیراعلیٰ کے دوروں کے باوجود سنڈیمن ہسپتال اور بی ایم اسی کی حالت زار ناگفتہ بہ ہے۔
وزیراعلیٰ جام جمال نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی سوشل میڈیا پر ہسپتال کے بارے میں شدید ناراضی پر مبنی انٹر ویو کے بعد اقدامات اٹھاتے ہوئے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیے جس میں وزیراعلیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ ان ہسپتالوں کے معامالات کی بہتری کیلئے ہر پندرہ دن بعد خود اجلاس طلب کرکے اس بارے میں اپنے احکامات کے پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں گے لیکن اس کے بعد ہماری نظروں سے ایسی کوئی خبر نہیں گزری کہ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس منعقد کیا گیاہو۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر چلنے والے پیغامات پر بھی بلوچستان کے لوگوں کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ سندھ اورپنجاب سے تعلق رکھنے والے زائرین کو بلوچستان کے علاقہ دالبندین کے ائیر پورٹ سے بذریعہ جہاز ان کے آبائی علاقوں یا صوبوں کو بھجوایا جائے جہاں ان کے علاقوں میں گرم آب و ہوا کے باعث اس وائرس کے کم پھیلنے کے امکا نات ہیں اور ڈاکٹروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ یہ وائرس گرم علاقوں میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اب یہ باتیں سامنے آنے کے باوجود ان ایرانی زائرین کو کوئٹہ میں رکھنے کا منصوبہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ کوئٹہ میں سردی نے دوبارہ رخ کر لیا ہے درجہ حرارت منفی سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا جارہا ہے ایسے میں یہ زائرین ہزار گنجی کے خیموں میں کیسے رہ سکتے ہیں جہاں گیس اور پانی کی سہولت ہے۔
اور نہ ہی بجلی، بیت الخلاء ’اور صفائی ستھرائی ’مطلب یہ کہ ہمارے محکمہ صحت نے اس وائرس کو خدانخواستہ بلوچستان میں پھیلانے کا پورا پور افیصلہ کرلیاہے۔ان زائرین کو ان کے اپنے گرم علاقوں میں رکھنے کے بجائے کوئٹہ کے سرد ترین علاقہ میں رکھنے کا فیصلہ صوبائی سطح پر کیا گیا یا وفاقی سطح پر ’اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی،یہ سراسر ان زائرین کو زندہ درگور کرنے والی بات ہے۔ وزیراعلیٰ کو چائیے کہ وہ اس مسئلہ کو وفاق کے ساتھ اٹھائے تفتان قرنطینہ قیام کے بعد کوئٹہ میں اس کی ہرگز ضرورت نہ تھی تفتان میں تمام انتظامات اور علاج معالجے کے بعد ان مریضوں کو بذریعہ طیارہ ان کے صوبوں کو منتقل کیاجاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
بتایا جاتا ہے کہ وائرس سرد علاقوں میں تیزی سے پھیلتا ہے موسم کے بدلتے ہوئے اثرات کے سبب نزلہ، زکام، کھانسی عام ہے۔ اگر خدانخواستہ اس میں کرونا وائرس بھی مل گیا تو سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملے گا۔ ایسی تباہی ایران سے آنے والی ایک خبر میں ہے جس کے مطابق ایرانی حکومت کو بین الاقوامی پابندیوں کے باعث بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد پورے ملک میں جہاں ہر طرف خوف طاری ہے وہیں جگہ جگہ کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔
اور فٹ پاتوں پر کرونا سے مرنے والوں کی لاشیں پڑی ہوتی ہیں خوف کے مارے لوگ حتیٰ کہ محکمہ صحت کے اہلکار بھی ان لاشوں کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پارہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران میں ہر گھنٹے کرونا کے شکار کسی شخص کی ہلاکت یا نئے کیسز کی خبریں آرہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے محکمہ صحت کی بحالی کا نظام جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر تھا اب مزید دباؤ شکار ہوگیاہے موجودہ حالات میں جہاں ایرانی عوام کے لئے زندگی کی امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں،قبرستانوں کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔
سڑکوں پر کراہتے مریضوں کو ہسپتال لے جانے کیلئے ایمبولینس دستیاب ہے اور نہ ہی کوئی شہری خوف کے مارے ان مریضوں کی مددکو تیار نظر آتا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے صوبائی حکومت کو اس صورتحال کے تناظر میں ہنگامی بنیادوں پر ان زائرین کو گرم علاقوں کی منتقلی کو اپنا اولین مقصد قرار دے کر بلوچستان میں خدانخواستہ اس وائرس کے پھیلنے سے قبل اقدام کرکے یہ احسن اقدام اٹھا سکتی ہے۔ایک خبر کے مطابق چینی شہر ووہان میں اب منظر نامہ تبدیل ہورہا ہے۔
جو وائرس سے شدید متاثر رہا،شہریوں کے مطابق مارچ کے مہینہ کے آغاز پر وہاں جاڑ ے کا موسم خاموشی سے رخصت ہوگیا، شہر بھر میں لگے چیڑ کے درختوں پر پھول کھلنا شروع ہوچکے ہیں،موسم بہار نے اپنی آمد کا اعلان پوری طاقت سے کردیا ہے جس سے توقع ہے کہ یہ وباء جلد ختم ہوگی۔علاوہ ازیں چین کے دیگر مختلف علاقوں میں صنعتی و کاروباری اداروں کی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں اقتصادی مرکز کہلانے والے شنگھائی شہر میں 100فیصد سپر مارکیٹیں اور پچانوے فیصد شاپنگ مالز اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز کھلے ہوئے ہیں۔اسی طرح چین کے صوبہ شان شی ’گوئی جو‘ جے لوگ جیانگ‘ شان دونگ‘ جیانگ سو‘ اور دیگر صوبوں میں اداروں کی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے فعال اقدامات کیے گئے ہیں۔
یہ تو صورتحال چین جیسے ترقی پذیر ملک کی ہے چین نے اس وباء سے نمٹنے کے لیے جس طرح راتوں رات ایمر جنسی ہسپتالوں کی عمارتیں کھڑی کیں اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی جبکہ ایک ہم ہیں اور ہمارا مفلوک الحال صوبہ جہاں صحت عامہ کی سہولیات پہلے ہی سے دگر گوں ہیں،اس پر اب کرونا وائرس کے مریضوں کی یلغار نے بلوچستان کے لوگوں کو شدید ذہنی کرب میں مبتلا کردیا ہے۔
وہ شدید پریشانی کے عالم میں حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں اور اس بارے میں غیر سنجیدہ اقدامات پر شدید برہم ہیں۔ میرے ایک دوست نے اس کالم کے آخری سطروں کی تحریر کے موقع پر آ کر مجھ پر انکشاف کیا کہ حفاظتی سامان نہ ہونے پر شیخ زید ہسپتال کے عملے نے ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا ہے۔ اب اس خبر کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ‘ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟