گذشتہ شب بلوچستان حکومت کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر ایک اجلاس کی تصویر شیئر کی جس کی صدارت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کر رہے تھے۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس تصویر پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب ایک صارف نے کہا کہ اس تصویر کو فوٹو شاپ کیا گیا ہے۔
تصویر میں وزیر اعلیٰ جام کمال کی کرسی پر ان کی ہی ایک اور تصویر لگائی گئی ہے لیکن اس عمل میں ایڈیٹنگ کرنے والے شخص نے دیوار پر لگی قائد اعظم کی تصویر اور جھنڈے کاٹ دیے۔
فوٹو شاپ کی گئی اس تصویر میں وزیراعلیٰ جام کمال دیگر اراکین کے مقابلے میں خاصے بڑے دکھائی دے رہے ہیں جو اس تصویر کو عجیب بناتا ہے۔ تصویر پوسٹ ہوتے ہی ٹوئٹر صارفین نے اس حوالے سے مزاحیہ تبصرے کرتے دکھائی دیے۔
سینیئر صحافی عباس ناصر نے کہا کہ عمدہ فوٹوشاپ، یہاں وزیر اعلیٰ کو ایک ’قدآور‘ شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ’پِگمیز‘ کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ پگمیز وسطی افریقہ کے وہ قبائل ہیں جو اپنے نہایت پست قد کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔
ایک صارف نے مشہور دیوہیکل فکشنل کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے تھینوس اس اجلاس کی صدارت کر رہا ہے۔‘
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر اکثر فوٹو شاپڈ تصویریں وائرل ہو جاتی ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی وہ تصویر جس میں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ترک صدر رجب طیب اردغان سمیت دیگر عالمی رہنماؤں کے جمگھٹ میں ایسے بیٹھے ہیں جیسے دیگر رہنما ان سے اہم مسئلے پر مشورہ مانگ رہے ہیں۔
مگر درحقیقت وہ تصویر تصویروں کی ویب سائٹ گیٹی امیجز سے لی گئی تھی جس میں وہ کرسی جس میں عمران خان بیٹھے دکھائے گئے تھے، وہ خالی تھی۔
صرف عمران خان ہی نہیں، انڈیا میں اسی کرسی پر ان کے وزیراعظم نریندر مودی، روسی صدر ولادی میر پیوٹن جبکہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان بھی بٹھائے گئے ہیں۔
بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید سے بات کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ یہ تصویر ’جان بوجھ‘ کر شیئر نہیں کی گئی بلکہ ’وزیر اعلیٰ دن میں پانچ سے آٹھ ایسی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں۔ یہ تصویر ہمارے سرکاری عملے نے گروپ میں شیئر کی اور میں نے ٹوئٹر پر شیئر کر دی۔ ابھی رابطہ کیا ہے متعلقہ عملے سے کہ وہ وضاحت کریں۔‘
تاہم لیاقت شاہوانی کے مطابق ان کے فوٹوگرافر کا کہنا ہے کہ ’تصویر فوٹو شاپ نہیں کی گئی بلکہ یہ ’اینگل‘ یعنی زاویے ہی ایسا ہے، جیسے لوگ سورج ہتھیلی پر رکھنے والا اینگل بناتے ہیں۔‘
اسی پر رائے دیتے ہوئے صحافی عنبر رحیم شمسی نے کہا کہ ’آپ سرکاری ترجمان ہیں، کچھ تو خیال کر لیں۔‘ جبکہ فلم ساز اسد ذوالفقار نے کہا کہ ’فوٹوشاپ لگتی ہے، ان کے سامنے رکھی کتاب کاٹ دی گئی ہے جبکہ دیگر کئی اشیا بھی عجیب لگ رہی ہیں۔‘ ایک صارف شہزاد ملک نے لکھا ’محض فوٹوشاپڈ نہیں، بلکہ بہت بُری فوٹو شاپڈ۔‘
عثمان طارق بھٹی نے ان کے سٹاف کو نشانہ بناتے ہوئے فلم ’آخر کیوں‘ کہ مشہور گانے کا ایک بول شیئر کیا: ’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔‘ جبکہ حمزہ امیر نے لکھا کہ ’کریزی ہونے کے لیے بھی ذہین اور سمارٹ ہونے کی ضرورت ہے۔‘