راولپنڈی/اسلام آباد : دن دارالحکومت میں بدھ کا دن سڑکوں کی بندش اور لمبے راستوں سے گزرنے کا روز تھا کیونکہ جڑواں شہروں کے رہائشی یوم آزادی کے موقع پر دو لانگ مارچوں کی آمد کے لیے تیار ہورہے تھے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی کو دارالحکومت کے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کو اس کی اجازت نہیں ملے گی۔
صوبائی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی اے ٹی کے ورکرز کو دارالحکومت میں مارچ کی اجازت اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک ڈاکٹر طاہر القادری کو مقدمات میں حراست میں نہیں لے لیا جاتا۔
آزادی مارچ کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نے جڑواں شہروں کے بیشتر رہائشیوں کی زندگی کو آسان کردیا ہے کیونکہ سیکیورٹی کو نرم کردیا گیا ہے، تاہم بدھ کو راولپنڈی سے اسلام آباد کا سفر کرنے والے افراد کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب احتجاجی مظاہرین کے بھیس میں دہشت گردوں کی ممکنہ آمد کی انٹیلی جنس رپورٹس کے پیش نظر سیکیورٹی اہلکار بدستور ہائی الرٹ رہیں گے۔
بدھ کو بیشتر حکومتی اور نجی دفاتر بند رہے اور جو کھلے بھی وہاں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی۔
وزارت پیٹرولیم کے ایک ملازم احسن شاہ نے بتایا” مجھے دفتر رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، مگر یہاں تک سفر کے دوران میں نے تین مختلف افراد کو لفٹ دی”۔
کیپیٹل سٹی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک عہدیدار محمد ریاض نے ڈان کو بتایا کہ وہ سیکٹر ایچ ایٹ میں پاکستان فلیگ مونومنٹ پارک میں کام کررہا ہے جس کا چودہ اگست کو افتتاح ہونا ہے۔
محمد ریاض نے کہا”بدھ کی صبح پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب تھی، جس پر میں بارہ کہو سے کرنل امان اللہ روڈ تک آیا، مگر دوپہر کو ٹرانسپورٹ غائب ہوگئی تو اس کے بعد میرے پاس لفٹ لے کر بارہ کہو جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا”۔
بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیوں، نجی اداروں اور سفارتی مشنز میں پہلے ہی بدھ کو تعطیل کا اعلان کردیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے تحفظ و سیکیورٹی(یو این ڈی ایس ایس) کی جانب سے جاری ایک ایڈوائزری میں پاکستان میں اپنے عملے کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے غیرضروری نقل و حرکت سے منع کیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کے عہدیدار گل خان نے ڈان کو بتایا کہ ہدایات کے مطابق صرف مقامی افراد کو ہی شہر میں داخلے کی اجازت دی جارہی ہے، جبکہ گزشتہ دو روز کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کو واپس جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
لاہور کے ایک شہری معروف احمد جو اپنے دوست کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے اسلام آباد آرہا تھا، اسے گولڑہ موڑ پر پولیس حکام نے روک لیا گیا اور داڑھی کی بناءپر پاکستان عوامی تحریک کا کارکن سمجھ لیا گیا، تاہم پولیس حکام سے بات چیت کے بعد معروف احمد کو شہر میں داخلے کی اجازت مل گئی۔
معروف واحد فرد نہیں جسے روک کر پولیس جانب سے واپسی کی ہدایت کی گئی، بڑی تعداد میں لوگوں کو مختلف چیک پوسٹوں پر روک کر واپس بھیجا گیا ہے۔
سڑکوں کی بندش کے ساتھ پولیس نے موٹرسائیکل سواروں کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں جنھیں رانگ وے پر جاکر متبادل راستے ڈھونڈنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان بیشتر سڑکیں کنٹینرز کے ذریعے بند کردی گئی تھیں، جی ٹی روڈ راوات کے قریب بند کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد ایکسپریس وے کھلا ہوا تھا اور زون وی کے باسی فیض آباد کے ذریعے اسلام آباد تک پہنچ سکتے تھے۔
شہر میں سیکٹر آئی ایٹ، آئی نائن، آئی ٹین اور جی نائب کی بیشتر شاہراہیں بند تھیں، جبکہ پولیس لائنز کی سڑک کو بھی بلاک کردیا تھا، اگرچہ مارگلا روڈ کھلا ہوا تھا مگر ریڈ زون اور ایف نائن پارک کی اطراف کی سڑکوں پر کنٹینرز بدستور موجود تھے۔
پاکستان سیکرٹریٹ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ فوج نے صبح اعلان کیا تھا کہ وہ ریڈزون کی سیکیورٹی کی ذمہ داری تین بجے سہ پہر کو سنبھال لے گی، تو اب کسی گاڑی کو سیکرٹریٹ اور قریبی عمارتوں کے پارکنگ ایریاز میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
ٹریفک کو متبادل راستے پر بھیجنے اور سڑکوں کی بندش کے ساتھ ریڈو زون کے سیونتھ ایونیو پر تمام موبائل نیٹ ورکس بھی غائب تھے۔
ایس ایس پی پولیس محمد عکی نیکوکارا نے ڈان کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے چند داخلی راستون کو سیکیورٹی وجوہات کی بناءپر بند کیا گیا، تاہم جڑواں شہروں کے رہائشی بغیر کسی مشکل کے سفر کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا” فیض آباد، آئی جے پی روڈ پر سی ڈی اے چوک، موٹروے اور مری سے اسلام آباد تک سڑک کھلی ہے تو مقامی رہائشی ان راستوں سے شہر میں آسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا” اگر حکومت کی جانب سے پولیس کو پورا شہر سیل کرنے کی ہداہت ملتی، تو کسی کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی، مگر عام صورتحال میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان ایک یا دو سڑکیں کھلی رہتی ہیں”۔
علاوہ ازیں وزیر دفاخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ انہیں مکمل اعتماد ہے کہ اسلام آباد پولیس ملک میں جمہوریت کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوگی۔
انہوں نے کہا” یہ بہت مایوس کن ہے کہ چند افراد کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اگر پولیس ان کے راستے میں آئی تو وہ جواب میں شدید ردعمل کا اظہار کریں گے، اس طرح کے بیانات قابل مذمت اور غیرذمہ دارانہ ہیں”۔
اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی جانب سے پی اے ٹی ورکرز کے خلاف راولپنڈی میں کریک ڈاﺅن جاری ہے، تاہم بیشتر کارکنوں کے روپوش ہونے کی وجہ سے بدھ کو پولیس کوئی گرفتار نہیں کرسکی۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یوم آزادی کے لیے سیکیورٹی پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اہلکاروں کو سات ہزار سے زائد ربڑ کی گولیوں اور ایک سو بیس شاٹ گنوں سے لیس کیا جائے گا، جبکہ 175 آنسو گیس کے لانچر اور ساڑھے چار ہزار سے زائد آنسو گیس کے شیلز بھی پولیس کو مہیا کیے جائیں گے۔
مجموعی طور پر دارالحکومت کی جانب آنے والے چودہ اہم پوائنٹس پر تین سو گیارہ کنٹینرز لگا کر راستے بند کیے گئے ہیں۔