|

وقتِ اشاعت :   August 14 – 2014

قوم آج یوم آزادی منارہی ہے اس عقیدت کے ساتھ پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ملک بنانا ہے جو عوام الناس کے مسائل کا حل ہے۔ اس بار یوم آزادی کا جوش و خروش احتجاج کی نذر ہوتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان کی آزادی مارچ اور طاہر القادری کا انقلابی مارچ نے حکومت کو معذور کردیا ہے۔اس کا اثر معیشت، اسٹاک مارکیٹ، حکومتی فیصلوں پر واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ معیشت مزید تنزلی کی طرف جارہی ہے۔ درآمد و برآمد کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں ایک دن میں 13سو سے زیادہ پوائنٹس کی کمی نے معاشی میدان میں ہلچل مچادی ہے۔ تیل کی ترسیل متاثر ہوئی ہے پنجاب کے اکثر شہروں میں پیٹرول اور ڈیزل کی کمی ہے۔ ہزاروں پمپ پیٹرول اور ڈیزل کا اسٹاک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ ایک صارف کو چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد پیٹرول مل جاتا ہے۔ اس طرح سے کروڑوں کام کے گھنٹے مجموعی طور پر ضائع ہورہے ہیں۔ یہ سب کچھ احتجاج کی وجہ سے ہورہا ہے۔ عمران خان بضد ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دیں۔ اس سے آگے وہ کچھ نہیں کہتے۔ نئے انتخابات کون اور کب کرائے گا؟ اگر ماہرین کی حکومت بنائی جاتی ہے تو عمران خان اس میں بجا طور پر کھیل کے وزیر ہوسکتے ہیں۔ وہ وزیراعظم نہیں بن سکتے ا ور نہ ہی اس بات کی گارنٹی ہے کہ ماہرین کی نئی حکومت انتخابات کرائے گی وہ وہ بھی صاف اور شفاف۔ دونوں مشکل نظر آتی یں۔ ہر سیاستدان اپنے حلقہ انتخاب میں مورچہ زن ہے۔ اس کو کوئی حکومت نہیں ہراسکتی۔ لہٰذا 80فیصد سے زائد لوگ وہی ہوں گے جو آج پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آسمان سے فرشتے نہیں آئیں گے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ 1970ء کے انتخابات زیادہ صاف اور شفاف تھے جس کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ بنگال کی 269نشستوں میں سے 267نشستیں عوامی لیگ نے جیت لیں تھیں اور واحد اکثریتی پارٹی ابھر کر سامنے آگئی۔ پھرحکمرانوں نے ملک کو توڑنا پسند کیا مگر اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنا گوارا نہیں کیا۔ لیکن آج کا بحران 1971کے بحران سے زیادہ شدید محسوس ہورہا ہے خاص کر حساس پاکستانیوں کو۔ جبکہ کند ذہن سیاستدان اس بحران سے لاتعلق ہیں اور ان کو شاید معلوم نہیں کہ ملک کتنے بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ اگر ان جاہل سیاستدانوں کو اس بات کا ادراک ہوتا تو وہ کوئی درمیانی راہ نکالتے اور لولی لنگڑی جمہوریت کو کام کرنے کا موقع دیتے اور اس میں بہتری لانے کے لئے کام کرتے۔ مگر دونوں حضرات اس بات پر بضد ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دیں۔ کیا وہ اپنے اس روییمیں تبدیلی لاناپسند کریں گے تاکہ لولی لنگڑی جمہوریت چلتی رہے اور نواز شریف کے بغیر چلتی رہے۔ مگر شاید احتجاج کرنے والے صرف یہ چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی بساط ہمیشہ کے لئے لپیٹ لی جائے۔ اس وقت ماہرین کی حکومت قائم کی جائے جس کو بین الاقوامی برادری شاید تسلیم نہیں کرے گی۔ امریکہ نے تو اعلان کیا ہے کہ اگر پاکستان میں کوئی غیر آئینی اقدام اٹھایا گیا اور جمہوریت اور منتخب حکومت کی بساط لپیٹی گئی تو امریکہ پاکستان کے خلاف اقتصادی اور دوسری پابندیاں لگائے گا۔