چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا اور ایران سے ہوتا ہوا غلطی سے بلوچستان آپہنچا۔ ہاں اس وائرس سے تو بڑی غلطی ہوئی, اس مہلک وائرس سے تو پہلے ہی انگنت وائرس بلوچستان میں آئے روز لوگوں کی جان لے رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھوک کا وائرس ہے جس نے لاکھوں بچوں کو غذائی قلت کا شکار کر دیا ہے مگر کسی نے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔
کسی نے یہ نہیں کہا کہ بلوچستان کی مدد کی جائے۔ وفاقی حکومت کو تو بلوچستان میں سونے کے ذخائر ہی نظر آتے ہیں ان کو کیا پتہ کہ بلوچستان کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ظلم تو پورے ملک میں ہو رہا ہے، علاج نہ ملنے کے باعث ملک میں ہر سال ساڑھے چار لاکھ بچے ملیریا، نمونیا اور اسہال جیسی قابل علاج بیماریوں کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔ سالانہ 50 ہزار عورتیں ایک نئی زندگی کو جنم دیتی ہوئیں زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہاں ایک کرونا نہیں،اس سے بڑے وائرس موجود ہیں، یہاں ایک ایسا وائرس موجود ہے جسے لوگ تقدیر کہتے ہیں۔ یا تقدیر کا فیصلہ۔
یا خدا کی طرف سے مصلحت۔ یہاں کوئٹہ کراچی جیسی ناقص سڑک پر سالانہ ہزاروں معصوم لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور اسے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ کوئی این ایچ اے پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ اور اگر نوجوان اس کے خلاف آواز اٹھائیں، لانگ مارچ کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے کوئی حکمران آگے نہیں بڑھتا۔ ڈاکٹر منظور بلوچ لاکھ لوگوں کو تقدیر، مصلحت اور سازش میں فرق بتائیں، سمجھائیں مگر یہ معصوم بلوچستانی لوگ پھر بھی کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ایکسیڈنٹ کو قتل نہیں تقدیر کا فیصلہ سمجھتے ہیں۔ یہاں کورونا وائرس ٹانگ پہ ٹانگ رکھے اور تماشہ دیکھے کیونکہ یہاں کینسر کا وائرس سالانہ ہزاروں معصوم بلوچستانیوں کو ان کی زندگی سے جدا کرتا ہے۔یہاں بھوک، افلاس اور پیاس کا وائرس ہے۔ یہاں سرداری نظام کا وائرس ہے۔
یہاں نواب، سردار، میر، کا وائرس موجود ہے۔ جو اپنے نوابی، سرداری اور میری کو قائم و دائم رکھنے کے لئے معصوم نوجوانوں کو بلی کا بکرا بنا کر اپنے ہم منصبوں سے جنگ میں استعمال کر کے موت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہاں آزادی رائے پر پابندی کا وائرس ہے۔ یہاں پسماندگی کا وائرس ہے۔ یہاں تعلیم کے ناقص نظام کا وائرس ہے۔ یہاں صحت کی سہولتوں کے فقدان کا وائرس ہے۔ یہاں لیڈر کشی کا وائرس ہے۔ یہاں عوام کو احساس محرومی، احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا وائرس ہے۔ یہاں سوچے سمجھے سازش کے تحت نوجوانوں کو منشیات میں مبتلا کرنے کا وائرس موجود ہے۔
میں اپنا درد کیسے بیان کروں۔ یہاں ایسے وائرس موجود ہیں جن کو ہم روز دیکھتے ہیں جانتے ہیں مگر افسوس کہ ان کے خلاف بات نہیں کر سکتے۔ بے بس ہیں سب، یہاں بے بسی کا وائرس ہے۔ یہاں لیڈر کے فقدان کا وائرس ہے۔ میں کیا کہوں یہاں کونسا وائرس نہیں۔ یہاں فرقہ واریت، قوم پرستی کا وائرس ہے۔ یہاں بے شمار وائرس موجود ہیں جنہیں گنا نہیں جا سکتا، سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اور کچھ ایسے وائرس بھی ہیں کہ جن کا نام لیا جائے تو اسے بڑی مہارت سے مٹا دیا جاتا ہے۔