آج پورے ملک پاکستان کی ویران ریلویز ویران ایئرپورٹ میٹرو بس سروس اور عظیم شان سڑکیں چیخ چیخ کر اس ملک کے حکمران طبقے کو احساس دلا رہے ہیں کہ ہسپتال ان چیزوں سے بہت ضروری تھے جو ہم نے نہیں بنائے ہیں جو ہم اس ملک کے عوام کو نہ دیں سکے ہیں۔
حکومت بلوچستان نے کروناوائرس کے روک تھام کے لیے میاں غنڈی میں کورونا وائرس کی روک تھام کی لیے بنائے گئے قرنطینہ مرکز میں حکومت وقت اور کرکٹ کے شائقین سے وفاداری اور فرمانبرداری اچھے انداز سے نبھائی تھی۔ جس کے نشانات آج ہمیں نوول کارونا وائرس کی شکل میں سیکڑوں کیس کی شکل میں مل رہے ہیں۔
قرنطینہ کا لفظ اطالوی زبان سے نکلا ہے جس کے معنی چالیس دن ہیں۔ قرنطینہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں عموما متعدی جراثیم کے شکار مریضوں کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے تاکہ یہ وائرس ملک میں نہ پھیل سکیں۔
اس وقت پورے بلوچستان سے زائرین نکل کر ملک کے چپے چپے میں پھیل گئے ہیں اب ان کو ایک ایک کرکے حکومت وقت ڈھونڈھ رہا ہے۔ کاش اس وقت قرنطینہ میں حکومت وقت سہولیات اچھے دیتی تو آج یہی صورتحال نہ ہوتی۔ کاش چین سے واپس آتے ہی صدر پاکستان کو تفتان لا کر قرنطینہ میں رکھاجاتا تو وزیر اعظم پاکستان کو بلوچستان حکومت کے اقدامات حوالے سے پتہ چل جاتا۔ افسوس ناک خبر یہ ہے کہ ہر وقت کسی بھی بیماری نے دنیا بھر جنم لیا ہے اس کا نقصان ہمیشہ غیور اور پسماندہ لوگوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ جس کی مثال بلوچستان اور سندھ کے حالیہ زائرین کی ہے۔
آج کل پاکستان میں کرونا وائرس ہر پاکستانی ٹی وی چینلز میں ٹاک شوز کا عنوان بنا ہوا ہے۔ اکثر ٹاک شوز میں بیٹھے لوگ کہتے ہیں ہم نے دہشت گردی کو شکست دی تو یہ کرونا کیا چیز ہے دہشت گردوں کے ٹھکانے ہوتے ہیں اور یہ وائرس خود ٹھکانہ بنا کے انسانوں کو قبر کے ٹھکانے پر پہنچا دیتا ہے۔
ہر سال ہزاروں زائرین بلوچستان سے تفتان کے راستے سے ایران جاتے ہیں اس سال بھی ہزاروں زائرین نے ایران کا سفر کیا ہے حالیہ سال میں چھ ہزار سے زائد زائرین نے ایران کا سفر کیا ہے اور واپسی پہ پاکستان پہنچے تو۔ پھر بلوچستان حکومت نے اسے سہارا دینے کی کوشش کی اور تفتان بارڈر پر جو ایران کے ساتھ ہے وہاں قرنطینہ کا قیام عمل میں لایا اور تین ہزار افراد کو وہاں اس طرح رکھا گیا جیسے بلوچستان کے باڑے میں جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔چودہ روز بعد ان کو وہاں سے آبائی علاقوں کو روانہ کیا گیا جس کے بعد سندھ حکومت نے انہی افراد کا دوبارہ ٹیسٹ کیا جن میں سیکڑوں افراد میں وائرس کی موجودگی کنفرم ہوگئی تھی پھر کیا تھا ہسپتال بھرنے لگے لوگوں کو گھروں سے پکڑنے لگے اور ان کا ٹیسٹ دوبارہ کرنے لگے۔
اگر صوبے میں عوام کو کورونا وائرس سے بچانے کے لئے صوبائی حکومت سنجیدہ ہوتی تو وہ صوبہ بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے کاموں کو فی الفور روک کر وہ فنڈز کورونا وائرس کی روک تھام اور بچاؤ پر خرچ کرتی تاکہ انسانی جانوں کو نقصان نہ ہو ویسے بھی ترقیاتی کام کس کام کے ہونگے جب ان سے مستفید ہونے والے انسان ہی نہیں ہوں گے۔ اب بھی بلوچستان کے تفتان و ہزار گنجی قرنطینہ میں مجموعی طور کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔
اب بھی وقت دور نہیں ہسپتال کی تعمیر کرنے کا بلوچی زبان میں قول ہیں کہ ہمت مرداں مدد اللہ (اے مردوں ہمت کرو مدد اللہ خود کریں گا)