خارپشت ایک جنگلی جانور ہے، اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتاہے۔مکران کے قدرتی حسن میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ یہاں سمندر، پہاڑ، دریا، صحرا اور میدان ایک دوسرے کے ساتھ ایک لڑی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔خارپشت کو بلوچی زبان میں ”دجوک”اور”جدوک“ کہا جاتاہے۔ حالیہ چند عرصے میں تواتر کے ساتھ بارشیں ہونے کی وجہ سے جب کھیت آباد ہوگئے ہیں اور لہلاتی فصلیں نظر آنے لگے۔تو ایک بار پھر پرندے اور جنگلی جانور نمودار ہورہے ہیں۔
کیونکہ طویل خشک سالی سے جب کھیت بنجر اور سر سبز درخت بھیڑ بکریوں کے چارے بن گئیتھے۔ تو پرندے اور جانور بھی یہاں سے نقل مکانی کرگئیتھے۔ پھر ہر طرف ویرانی کا منظر تھا۔گاؤں سے لوگ نقل مکانی کرکے شہروں میں منتقل ہوگئے تھے۔
گذشتہ سال جب بارشوں کا سلسلہ شروع ہوئی تو ویران کھیت دربارہ سبزہ زار ہوگئے۔ بلبل اور کبوتر بھی درختوں کے شاخوں پر بیٹھ کرکے سریلے آواز سے گیت گارہے ہیں۔ ویران جنگل آباد ہوگئے۔ گلہری بیر کے درختوں میں بیر توڑے ہوئے نظر آرہے ہیں۔قریبی پہاڑی سے بھی جنگلی جانور مقامی آبادی کا رخ کررہے ہیں۔
اب آتے ہیں پھر خارپشت کی طرف، میں بات کو کہاں سے کہاں لے گیا۔دو دن پہلے میں گھر میں بیٹھا کچھوؤں کی موت پر زار و قطار سے رو رہا تھا کہ میرا کزن سراج حکیم نے گاؤں سے بذریعہ وٹس ایپ خارپشت کے کچھ تصاویر بھیجے۔ یہ دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی کہ اب بھی گاؤں میں جنگی جانوروں کے کئی نسلیں موجود رہ گئے ہیں۔گاؤں میں ہمارے گھر چونکہ کھیتوں کے قریب ہیں۔ اس لئے یہ خارپشت یعنی ”دجوک“ کھیتوں سے ہوتے ہوئے گھر کے قریب آیا تھا۔جنہیں بروقت ریسکیو کرکے واپس جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔
ویسے بھی گوادر کے اکثر علاقوں میں دوست مجھے جنگلی جانوروں اور پرندوں کے تصاویر وقتاً فوقتاً بھیجتے ہیں۔تصویروں کو دیکھ کر محجھے اپنا بچپن یاد آتی ہے۔ جب ہم گاؤں کے خوبصورت فضاؤں میں آزادانہ ماحول میں جی رہے تھے۔کبھی پرندوں کے گھونسلے میں بچوں کو گھر لاکر قید کرتے تھے، تو کبھی بکریوں کو چرانے شکارگاہوں کی تلاش میں تپتی دھوپ اور ٹھٹرتی سردیوں کا بھی خیال نہیں کرتے تھے۔ اب ماحول بدل چکی ہے، لوگ پرندوں کو دیکھ کر ماہر شکاری بن جاتے ہیں۔ خرگوش اور ہرن کی نسل کشی کے بعد اب یہ ہمارے گاؤں کے پہاڑوں اور میدانوں میں ناپید ہوچکے ہیں۔جنگلی جانوروں کو بے دردی سے مار کر فخریہ انداز کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کرتے ہیں۔سانپوں کو دیکھ کر ایسے مارتے ہیں جیسے سانپ کو مارنا انکی ذمہ داری ہے۔
اس وقت چونکہ پرندوں کی نیسٹنگ سیزن ہے، اور بے دردی سے پرندوں کی شکار سے انکے نسل کشی ہوتی ہے۔ تمام جانور اور پرندے نیچر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں،اور ہم نیچر کو اپنے ہاتھوں برباد کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ بلبل کے سریلے گیت،کپوت کے کوکو، اور فاختوں کی چہچاہٹ ہی فضاؤں کو خوبصورت بنادیتے ہیں۔
”دجوک“ بھی نیچر کا ایک حصہ ہے، اور ہم ”دجوک“ کو نیچر سے جدا کر نہیں سکتے کیونکہ نیچر کے خوبصورت کیلئے پرندے،جانور، کیڑے مکوڑے اور درخت کردار ادا کررہے ہیں۔ اور نیچر کی تباہی صرف آدمی کررہے ہیں۔