کورونا وائرس ووہان چائنا سے شروع ہوکر ایران سے ہوتے ہوئے بالآخر ہمارے وطن عزیز پہنچ ہی گیا۔ چائینیز ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس اسٹاف نے جس جذبہِ حبْ الوطنی و انسانیت کی خدمت سے سرشار ہوکر اس جنگ میں کھود پڑے انھیں تاریخ ہمیشہ سنہرے الفاظ سے یاد کرے گاوہ شوہر اپنے ڈاکٹر بیوی کو شیشے کے دوسری طرف الوداع کرکے آنسو بہا دیتا ہے اور ڈاکٹر بیوی اپنے شوہر کو تسلّی دیتی ہے کہ میں اپناقومی فریضہ نبھانے کے لیے اپنی ہر کشتی کو جلا کر نکل پڑی ہوں۔
اس میں سرخرو ہوکر لوٹوں گی یا پھر کروناسے جنگ لڑتے لڑتے خود کو قربان کرادونگی اسی طرح نرسوں اور پیرامیڈیکس اسٹاف کے والدین اور رشتہ دار اپنے پیاروں کو اس *قومی فریضہ* کے لیے قربان ہونے کے لیے روانہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں کچھ کرونا سے جنگ لڑتے لڑتے اپنی عظیم مشن پر قربان ہوکر اپنے وطن کے شہید کا درجہ پاتے ہیں اور کچھ قلیل مدت میں غازی بن کر فاتحانہ انداز میں ووہان کو کرونا سے پاک کرکے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ان چائینیز ڈاکٹرز، نرسز و پیرامیڈیکس اسٹاف نے اپنے زندگی ہتھیلی پر رکھ کر کیونکر یہ فیصلہ کیا؟ ان کو سو فیصد یقین تھا کہ ہم جس گمنام وائرس سے جنگ کے لیے زادِ راہ لے کر روانہ ہورہے ہیں۔
اس سے واپسی کے تمام راستے بند ہیں بس ایک ہی راستہ ان کے لیے بچا ہے جس سے وہ واپس اپنے گھروں میں لوٹ سکتے ہیں وہ راستہ ہے کورونا کو شکست دے کر ان کو خاتمے کی صورت میں اور وہی ہوا عوامی جمہوریہ چین کے ان سپوتوں نے موت کو گلے سے لگا کر ان کو تاریخی شکست دے کر اپنے *قومی فریضہ* میں کامیاب ہوکر اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔ ان کی واپسی کا منظر دیدنی تھا دنیا کی معاشی سْپر پاور کے آرمی کے جوانوں نے انہیں دل سے اور بخوشی سلوٹ کیاان کی تصاویر چین کے اہم شاہراؤں پر لگا دی گئی۔ چین کے ہر فرد انہیں غازی سمجھ کر ان کو اپنا ہیرو سمجھ رہے ہیں۔
اسی طرح ایران سمیت دنیا کے باقی ملکوں کے ڈاکٹرز میدان میں کود پڑے ہیں۔دوسری طرف ہم ہیں غیرسنجیدہ لوگ کہ کرونا وائرس پہنچنے سے پہلے ہم لاکھوں افراد وٹس ایپ پر صحافی و ہیلتھ تجزیہ نگار بن بیٹھے اس عالمی خطرناک و جان لیوا وباء کا اپنے اپنے انداز میں مذاق اڑانا شروع کردیا اور لوگوں میں خوف پھیلانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ لاکھوں افراد راتوں رات حکیم، ڈاکٹر، دائی، پیر و فقیر بن کر اپنے اپنے انداز میں اس مہلک وبا کا علاج کی ترکیب نکالنے کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ باقی لوگوں نے اپنے آپ کو مطمئن کرانے کے لیے روایتی، مذہبی اور دیسی ٹوٹکوں سے لیس ہوکر تیار بیٹھے ہمارے مذہبی عقیدت مندوں نے چند آیتوں اور وظائف کو ہتھیار بنا لیابالا تیاری مکمل ہونے کے بعد ہر کوئی مریضوں کی راہ تکنے لگا کہ کوئی نہ کوئی شکار ہاتھ میں لگ جائے ان کو کرونا کا مریض ظاہر کرکے اپنے ٹوٹکے کے ذریعے ان کا علاج کرواکر پوری دنیا کو بتا دیں گے کہ ہم ہی ہیں جنہوں نے کورونا کا علاج سب سے پہلے دریافت کیا ہے۔
اور اس عمل سے وہ پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے در پہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے عوام کے نقشِ قدم کو اپناتے ہوئے بغیر انٹرنیشنل حفاظتی طریقہ کاروں کو اپناتے ہوئے میدان میں کود پڑے دنیا نے جن احتیاطی تدابیروں کو اپنانے کا درس دے کر اس وبا کو کنٹرول کرانے کا ذریعہ بتا دیا ہے ہمارے حکمرانوں کے ضلعی نمائندوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بغیر آلات کے آئیسولیشن وارڈ قائم کردی سونے پہ سہاگہ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں اصطبل سے بدتر قرنطینہ سینٹر قائم کرکے باہر سے آنے والوں کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کے بجائے سب کو اکھٹا کرلیا۔ انہی اصطبل نما قرنطینہ مراکز میں کرونا کے مریض کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان کو الگ تھلگ رکھا جاسکے تاکہ ان کا علاج کرکے اس مہلک بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکے لیکن ان قرنطینہ مراکز میں ایسا کوئی احتیاطی تدابیر اپنائی نہیں جارہی ہے۔
ہمارے ان اصطبل نما قرنطینہ مراکز میں موجود وائرس سے مشتبہ افراد اور باقی لوگوں کو ایک ہی اصطبل نما قرنطیناؤں میں بے یار و مدد گار رکھا ہوا ہے۔ اب یہی مشتبہ افراد کے وائرس ان قرنطینہ مراکز میں موجود سینکڑوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری ملک کے بالا طبیبوں کے لیے مریضوں کا لائن لگوانے کی تیاری کردی گئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز ایک قرنطینہ مرکز میں کرونا متاثرین نے وہاں پر موجود افراد کے ساتھ احتجاج کرنا شروع کردیا ہے اب خوفناک صورت میں ہر جگہ پر روزانہ کی بنیاد پر مریضوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوگیا ہے ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اپنے ایک ٹویٹ میں دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے غریب ممالک کے قرضہ معافی کی درخواست کر ڈالی۔ دنیا کے مختلف ممالک کے سربرہان ہمارے لیے امداد کا اعلان کرتے لیکن ہمارے جنگ زدہ ہمسایہ ملک *افغانستان* کے سربراہ نے پہل کرتے ہوئے وطن عزیز کی امداد کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کروڑوں ڈالر کے امداد کا اعلان کردیاافغانستان کا یہ غیر متوقع اعلان سے دنیا کے معاشی طاقتوں کو غریب ممالک کی امداد کرانے کی راہ ہموار کرائی اب جب کورونا دن و رات تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے تو ہمارے ہاں ہرطبقہِ طب کے لوگوں و مذہبی عاملوں نے اپنے اپنے انداز میں چھریوں کو تیز کردیا ہے۔
انہوں نے غریب عوام جوکہ اپنا گزر بسر روزانہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کش کے جیب پر حملہ آور ہونے کی مکمل تیاری کرلی ہے اور ان کے جیب خالی کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ان مذکورہ بالا لوگوں نے کرونا سے ڈرائے گئے لوگوں کی لْوٹ مار کرنے کو اپنا نصب العین سمجھ لیا ہے حکومتِ پاکستان اب تک کوئی واضح فیصلہ کرنے سے قاصر رہا ہے وہ صرف احتیاطی تدابیر اور عوام کو گھروں میں محسور ہونے کی رضاکارانہ اپیل سے اکتفا کررہا ہے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہر ایک کی بس کی بات ہے لیکن ہم بحیثیت صاحبِ اختیار عوام دنیا کے دیگر اقوام کے مقابلے میں عمل کرنے سے قاصر ہیں اور اسی طرح ہمارے حکمران عمل کرانے سے بھی قاصر رہے ہیں ہمارے مرکزی و صوبائی حکمران لاک ڈاؤن کا باقاعدہ اور واضح فیصلہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
اگر مگر کی صورتِ حال میں حکومتِ سندھ نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے وہ بھی جزوی حکومتِ سندھ کی اب تک اٹھائے گئے اقدامات قابلِ تعریف ہیں انہوں نے پیشگی کچھ اقدام اٹھاکر بروقت تیاری کرلی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے ان سخت اقدامات پر حکومتِ بلوچستان کی جانب سے پانی پھیرا گیا ہے۔ ایران کی طرف سے کورونا متاثر ذائرین کو اپنی بارڈر پر ٹڈی دلوں کی طرح چھوڑ کر انہیں پاکستان کے حوالے کرنا کسی مہلک ہتھیار سے کم نہیں تھا اور نہ ہی ہے۔
پھر ان کورونا وائرس متاثرین ذائرین کو حکومتِ بلوچستان کی طرف سے تفتان کے مقام پر قائم کردہ قرنطینہ مرکز میں مکمل آئیسولیشن نہ کرانا اور پھر انہیں ملک کے مختلف حصّوں اور خصوصاً سندھ کی طرف روانہ کرنا بہت بڑا قومی المیے کا سبب بن سکتا ہے یہ عمل وفاقی اور صوبائی حکمران کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے وفاقی حکومت نے اپنے معاشی طور پر کمزور اکائی بلوچستان حکومت پر اتنا اعتماد کرنا نہیں چاہیئے تھا کیونکہ بلوچستان حکومت کوئی تدارک کا طاقت نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے کمزور لیویز فورس کے ساتھ انھیں کنٹرول کرسکتا تھا ایسے حالت میں وفاق کو ایک باپ کا کردار ادا کرنا چاہیئے تھا جوکہ وہ نہیں کرسکا۔
اور یہ مہلک وبا ایران سے ہوتا ہوا بآسانی بلوچستان کے بارڈر سے پوری پاکستان میں پھیل گیا۔ اس وبا نے عالمی معاشی سپر پاؤروں کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہوا ہے ہمارے ملک ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں ایسے حالات میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ پھر بھی اس پر تذبزب کے شکار ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیئے کیونکہ ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
صرف لوگوں کو گھروں میں محسور کرانے سے بھوک ان کو نگل جائے گی ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں دیگر ممالک کی طرح ایک مخصوص فنڈز کا اعلان کرتے اور پھر لاک ڈاؤن کے آپشن پر عمل کرتے ہوئے اعلان کرتے، عوام کے لیے ایک چھوٹا سا راشن پیکیج اعلان کرتے تب عوام مجبور ہوکر گھروں میں محسور ہوجاتے اسی طرح ہمارے صوبہ بلوچستان کے خشکی و سمندری بارڈر جوکہ شدید کورونا متاثر ہمارے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ ہیں جہاں حکومتی فیصلے پر عمل نہ ہونے کے برابر ہیں ظاہری نقل و عمل پر پابندی عائد ہے لیکن خفیہ طریقہ سے نقل و حرکت کی چند ایک شکایت موصول ہوچکی ہیں۔
ہمارے حکمران و دیگر صرف اور صرف شہروں کو فوکس کیے ہوئے ہیں ہم نے دہاتوں کو کورونا وائرس سے مبرّا سمجھ کر وہاں کے عوام کے بارے میں ایک فیصد بھی ابھی تک نہیں سوچا۔ ہمارے مختلف مذہبی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے سرکل کے لوگوں کو مذہبی جنونیت کے تحت اکسانے اور احتیاطی تدابیر کو پامال کرانے پرتْلی ہوئی ہیں جوکہ اب بھی کر رہے لیکن چند ایک جو عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کا درس دے رہے ہیں جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں اب ہم رجعت پسند عوام کو کیا کرنا ہوگا کس کس کی باتوں پر عمل کرنا ہوگا؟ ہمارے ہاں ہر کوئی خوف و ڈر کا ماحول پیدا کرانے کے درپے ہیں سوشل میڈیا غلط استعمال ہورہا ہے۔
ہم احتیاطی تدابیر کے بجائے مریضوں کی تعداد گنّے میں مصروف ہیں اب ایسے میں ہر علاقے کے سینیٹر، ایم این اے، ایم پی اے، عوامی نمایندگان و سیاسی پارٹی سربراہان اور خصوصاً مذہبی رہنماؤں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ان حضرات کو اسلام آباد و اپنے اپنے صوبائی دارالحکومت کو چھوڑ کر اپنے اپنے علاقوں کا رخ کرنا ہوگا اور اپنے ووٹرز و عام عوام کو خوف سے نکال کر احتیاطی تدابیر اپنانی ہونگی اگر سوشل میڈیا پر مذکورہ بالا مثبت احتیاطی تدابیر کا پیغام شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈر اور خوف پیدا کرانے والوں کی نفی کریں تو عوام ذہنی طور پر اس آزمائش سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوسکتے ہیں عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ اس ملک کے حکمرانوں کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔