|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2014

پشاور: شمالی وزیرستان کے قبائلی عمائدین نے خبردار کیا ہے کہ اگر انہیں حکومتی فیصلے کے مطابق تیس اگست سے قبل اسکولوں کی عمارتوں کو خالی کرنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے۔ شمالی وزیرستان ایجنسی کی امن کمیٹی کے سربراہ حاجی شیر محمد نے جمعرات کو پشاور پریس کلب پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً دس لاکھ افراد اس قبائلی ایجنسی میں فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، لیکن وفاقی حکومت انہیں خیبر پختونخوا میں مناسب پناہ گاہ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملک نور رحمان داور، فضل خان وزیر، سعد شاہ اور فضل غفار وزیر سمیت امن کمیٹی کے دیگر اراکین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ان قبائلی عمائدین کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے کھوکھلے دعووں پر یقین نہیں کرسکتے، اور اگر انہیں بنوں اور دیگر ضلعوں کے مختلف حصوں میں اسکول کی عمارتوں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا توہ بنیادی سہولیات اور مناسب پناہ گاہ کی فراہمی کے لیے احتجاج کریں گے۔ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’حکومت کا دعویٰ ہے کہ 80 فیصد علاقے کو عسکریت پسندوں سے خالی کروالیا گیا ہے، لیکن ہمیں ہمارے گھروں کو واپس بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، یہی معاملہ بے گھر افراد کے لیے تشویش کا باعث ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہی تو وہ کسی بھی وقت اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ امن کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کی کل دس تحصیلوں میں سے پانچ کو خالی کرالیا گیا تھا، اور یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان لوگوں کو ان کے علاقوں میں جانے کی اجازت دے۔ انہوں نے کہا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کو ان کی واپسی کا پلان دے دیا جائے تو وہ بخوشی اسکولوں کی عمارتوں کو خالی کردیں گے۔ ملک نور رحمان نے کہا کہ تقریباً پچیس ہزار بے گھر خاندانوں کو خیبر پختونخوا کے مختلف سرکاری اسکولوں میں رہنے کی جگہ دی گئی تھی، لیکن اب انہیں تیس اگست سے قبل ان اسکولوں کو خالی کرنے کا نوٹس موصول ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے گھر افراد کے ساتھ یہ بہت بڑی ناانصافی ہے، جسے وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) نے بے گھر افراد کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی تھی، لیکن اس پر کال کرنے والوں کو کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ ملک نور رحمان نے کہا کہ ایف ڈی ایم اے کی جانب سے اعلان کردہ امدادی پیکیج ناکافی ہے، اس لیے کہ ہر ایک خاندان میں ستّر سے اسّی افراد ہیں، اور اس قدر مختصر پیکیجز سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے کہا ’’حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیٔے اور امدادی پیکیج کے حجم اور مقدار میں اضافہ کرنا چاہیٔے۔‘‘ ملک نور رحمان نے کہا ’’ایسے بے گھر افراد جن کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ میں دو پتے درج ہیں، انہیں کسی قسم کی سہولیات نہیں دی گئی ہیں، اور انہیں رجسٹریشن تک سے محروم رکھا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ صرف دو لاکھ قبائلی افراد نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے امدادی رقم حاصل کی تھی، جبکہ نو لاکھ افراد تاحال امداد کے منتظر ہیں۔ امن کمیٹی کے رکن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شمالی وزیرستان میں محصور قبائلی افراد کو بھی راشن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ رجسٹریشن سے محروم بے گھر افراد کی رجسٹریشن کی جائے اور انہیں تمام امدادی اشیاء فراہم کی جائیں۔ ان کا کہنا تھاکہ حکومت کو تمام تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو کھول دینا چاہیٔے اور بے گھر افراد کو ان کے گھروں کو واپسی کے لیے تمام سہولتیں فراہم کرنی چاہیٔے۔