|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2020

خضدار:  گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال خضدار کے ڈاکٹروں کی زندگی شدید خطرات سے دوچار،ہسپتال میں ڈاکٹروں کو نہ میڈیکل ماسک،نہ گلوز،نہ دیگر حفاظتی آلات فراہم کئے گئے ہیں۔

رسک اٹھا کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں موجودہ صورتحال میں کوئی بھی مریض خطرے سے خالی نہیں ڈاکٹروں کا اظہار خیال،حکومت کورونا وائرس سے بچاو کے لئے ٹیچنگ ہسپتال خضدار کے ڈاکٹروں کو حفاظتی و ٹیسٹ کے آلات فراہم کئے جائیں۔

تفصیلات کے مطابق ضلع خضدار میں ٹیچنگ اسپتال جو ماضی میں بھی بے شمار مسائل سے دوچار تھا اب مزید گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے ایسے موقع پر کرونا وائرس پورے صوبے میں جنم لے چکی ہے اور کوئی علاقہ اس خطرے سے خالی نہیں ہفتے کو ٹیچنگ اسپتال خضدار کے مسائل کا ایک مختصر جائزہ لیا گیا تو ڈیوٹی پر موجود کئی سنیئر ڈاکٹروں نے حفاظتی انتظامات اور حکومتی ہدایات کے بغیر اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

استفسار پر پتاچلا کہ حکومت کی جانب سے تشخیصی کٹ تو دور بات ہے فیس ماسک گلوز تک انہیں فراہم نہیں کیا گیا ڈاکٹروں کے مطابق ٹیچنگ اسپتال خضدار صوبے کا دوسرا بڑا اسپتال ہے یہاں روزانہ کی بنیاد پر ایمرجنسی کیسز بھی درجنوں کے حساب سے آتے ہیں ان مریضوں کی دیکھ بھال بحیثیت ڈاکٹر لازمی کرنا پڑتا ہے حالانکہ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کوئی بھی مریض ان حالات میں خطرے سے باہر نہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق حکومت بلا تاخٰر صوبے کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی حفاظتی سامان فراہم کرے کہیں ایسا نہ ہو جان بچانے والے ڈاکٹروں کواپنی جان بچانا مشکل ہوجائے دریں اثنا عوامی حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبے بھر خصوصا ٹیچنگ اسپتال خضدار میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو فوری طور پر حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ بلا خوف و خطر لوگوں کو علاج و معالجے کی سہولت فراہم کرسکیں۔

انہوں نے کمشنر قلات ڈویژن سے بھی پرزور اپیل کی کہ وہ ایران سے متصل علاقوں سے آنے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کروانے کے احکامات صادر فرمائیں تاکہ کرونا وائرس نامی وبا کی روک تھام میں مدد ملے دریں اثناء غور کرنے کی بات ہے کہ صوبہ بلوچستان میں بھی کورونا وائرس نامی وبائی مرض نے اپنے پنجے گاڑھ دیئے ہیں۔

لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے انتظامی اور حفاظتی اقدامات سے عوام نہ تو مطمئن ہیں اور نہ ہی محفوظ انتظامی کوتاہیوں کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ روز اول سے ایران سے متصل سرحدی علاقہ تفتان میں زائرین کواجتماع کی شکل میں خستہ حال کمروں اور پھر خیموں میں باڑ لگا کر ڈالا گیا اس وقت سے اب تک اس علاقے میں زائرین کے لئے کوئی مربوط حکمت عملی نہیں اپنا یا گیا اور یہ سرحدی علاقے دن بہ دن خطرے کی علامت بنتی جا رہی ہیں۔

اب ایران پلٹ لوگ نہ صرف زائرین ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو مزدوری کی غرض سے ایران میں عارضی مزدوری کررہے تھے اب ان لوگوں کی ایرانی ڈیزل اور پیٹرول سمگلنگ کرنے والے گاڑیوں میں اندرون صوبہ لایا جا رہا ہے یقینا یہ ایک خطرناک عمل ہے اور باقی لوگوں کے لئے خطرے کی علامت بھی اسطرح انسانی سمگلروں نے اس کاروبار کو بھی منافع بخش کاروبار سمجھ کر اختیار کیا جس سے اس موذی وبا کو مزید پھیلنے میں آسانی ہوئی۔