|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2020

کوروناوائرس، کیسے، کیوں،کہاں اورکون؟یہ وائرس کے بعد اٹھائے جانے والے وہ سوالات ہیں جو وائرس کی وباء سے پہلے اٹھانے چاہئیں تھیں، مگر وائرس نے اپنے پنجے پاکستان میں گاڑ دیئے ہیں، مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے مگر چند میڈیا کی سنسنی خیز خبروں کی نشر ہر سکینڈ کے دوران بریکنگ نیوز کی صورت میں عوام کے ذہنوں میں خوف پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں وہ سنسنی خیزخبریں ہیں جو عوام کو بروقت پہنچائی جارہی ہیں جبکہ ساتھ ہی کورونا وائرس سے جڑی سائیڈ اسٹوریز پر بھی مسلسل خبریں دی جارہی ہیں۔میڈیا کی ذمہ داری بالکل بنتی ہے کہ عوام کو ہر خبر سے باخبر رکھے، کتنا سچ بولا جائے جو ہضم ہوسکے۔

میڈیا میں اب نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی کے بعد نئی بحث کو خوامخواہ ہوا دی جارہی ہے کہ پابندی کے باوجود کیونکر اجتماعات منعقدکئے گئے، جس پر علمائے کرام نے بھی بعض میڈیا کے ٹاک شوز میں جوابی وار کئے کہ صرف مساجد کو ہدف کیونکر بنایا جارہا ہے جو کہ درست بھی ہے۔ کیا میڈیا جن سوالات کو علمائے کرام کے سامنے رکھ رہی ہے، اس پر خود کتنا عمل کررہی ہے، رات گیارہ بجے کے وقت احتیاطی تدابیر اور فاصلے کی نصیحتیں کرنے والے چینلز پر انٹرٹینمنٹ پروگرام چل رہے ہیں جن میں شرکاء کی تعداد اگرچہ محدود ہے مگر پھر بھی لگ بھگ چھ کے قریب لوگ اسٹوڈیومیں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، کیایہ عین قانون کی پاسداری کے مطابق ہے؟ میڈیا کاکام صرف سوال اٹھاناہی ہے؟

میڈیا پر ان پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا؟ میڈیا کو کس حد تک آزادی حاصل ہے؟ میڈیا ہاؤسز میں ہونے والے انٹرٹینمنٹ پروگرام کوروناوائرس فری ہیں؟ اس خطرناک وباء کے دوران انٹرٹینمنٹ پروگرام کا ہوناضروری ہے؟انٹرٹینمنٹ پروگرام کے حوالے سے کیونکر بحث نہیں کی جارہی کہ جتنے افراد اسٹوڈیو میں تشریف فرما ہیں اتنے افراد گلی یا محلے کے کسی نکڑ پر اکٹھے ہوسکتے ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ میڈیا چینلز پر بیٹھے حضرات عوام کو بار بار احتیاطی تدابیر کا درس دے رہی ہیں مگر خود مجمع اکٹھا کرنے سے گریز نہیں کررہے بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر ایسے حساس معاملات کو اپنے پروگرام کاحصہ بنارہے ہیں۔

جوکہ تفرقہ بازی کا باعث بن ر ہے ہیں۔ جب یہ خبر سامنے آئی کہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اسی کے ردعمل میں بھرپور وار کئے جارہے ہیں کہ یہ وائرس کہاں اور کس کے ذریعے ملک کے اندر منتقل ہوئی ہے؟ اس پر کسی اور فرقہ کو نشانہ بنایاجارہا ہے اور یوں غیر محسوس طریقے سے ایک تقسیم درتقسیم کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ بیک وقت ایسے معاملات کو زیادہ شہ دی جارہی ہے جس سے ہنگامہ برپا ہوجائے، یوں گمان ہوتا ہے کہ شاید جان بوجھ کر ریٹنگ بڑھانے کیلئے ان معاملات کوزیر بحث لایاجارہاہے؟

حیرانگی کی بات یہ بھی ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا ہی پریشان دکھائی دے رہاہے کہ اس خطرناک وباء کا مقابلہ کیسے کیاجائے؟ جہاں پر میڈیا کے علمائے کرام سے سوالات ہیں تو وہیں پر پرائم ٹائم کے دوران خاص علماء کو دعوت دی جاتی ہے کہ اس وباء کا مقابلہ ہم کیسے کرسکتے ہیں؟ ہم نے کیاگناہ کئے جو یہ وباء ہم پر نازل ہوئی؟ اب قوم کو اکٹھا نہیں ہوناچاہئے؟ توبہ استغفار کرنے کا وقت نہیں آیا؟ روروکر آنسوبہاکر خاص دعائیں کی جارہی ہیں،اسے سنجیدگی یا پھرغیر سنجیدگی سمجھاجائے؟ بہرحال دنیا کے 190سے زائد ممالک اس وباء سے متاثر ہوچکے ہیں اوروہاں پر جو تباہی کورونانے مچائی ہے اس کا ایک فیصد بھی پاکستان متاثر نہیں ہواہے۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں اور اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں ان میں مریضوں کورکھنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے، قبرستان پر قبرستان بنائے جارہے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں افراد اب تک متاثر ہیں، بڑے بڑے ممالک میں نہ صرف لاک ڈاؤن بلکہ کرفیو تک نافذ کیاجاچکا ہے،جہاں کبھی انسانی ہجوم کا سمندر ہوا کرتا تھا وہاں شاہراہیں،تاریخی،تفریحی مقامات سنسان اورویران ہیں یعنی ایک ہْوکاعالم ہے۔ عوام اس قدر خوفزدہ کہ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے، آسمان پر صرف پرندے اڑتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ انسانوں کا دور دورتک نام ونشان نہیں۔

اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کس طرح کی تباہی ان ترقی یافتہ ممالک میں کورونا وائرس نے مچائی ہے۔کیا ان ممالک کے پڑھے لکھے لوگ اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے یہ وباء انسانی بحران کی شکل میں آیاہے؟ کیاوہاں پر قومی یکجہتی پر زور دیاجارہاہے؟ وہاں کی عبادت گاہوں سمیت ان مذاہب کے اسکالرز کو بٹھاکر یہ پوچھاجارہا ہے کہ کیا گناہ سرزد ہوئی ہے جس نے ہزاروں جانیں نگل لیں؟ہرگز نہیں، ہاں البتہ میڈیا سے بات چیت کے دوران امریکی صدر نے جب اسے چائنا وائرس قراردیا تو وہاں پر موجود صحافیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر سوالات کی بھرمار کرتے ہوئے چینی وائرس کو متعصبانہ روش قرار دیا۔

البتہ یہ الگ بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ حسب روایت اپنی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی زبان سے نکلے الفاظ پر پشیمان نہیں ہوئے مگر وہاں موجود صحافیوں نے یہ ثابت کردیا کہ وائرس کسی ملک، مذہب، فرقہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ وباء ہے جو تمام انسانوں کو متاثرکررہا ہے جسے وہاں کے پڑھے لکھے صحافتی شعبہ کی باشعور اور سنجیدگی کا بہترین نمونہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں پہلے سے ہی مذہب، فرقے اور لسانیت حساس موضوعات ہیں جن کے سبب اتنا تفرقہ پھیلاہے کہ آج تک اس کا زہر دماغوں کے اندرموجود ہے۔


شاید وہ واحد ملک ہمارا ہے جہاں پر اس وباء کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے سنجیدہ گفتگوکی جائے مگر نہیں اسے بھی سنسنی خیز بناکر عوام کے خوف واحساسات کے ساتھ کھیلاجارہا ہے۔خدارا میڈیاکو اس سنسنی خیزیت سے نکلنا چاہئے کیونکہ قومی یکجہتی سے زیادہ اس وقت میڈیا کو عوام کے اندر موجود خوف کو نکالنا زیادہ ضروری ہے جس پر ملکی اور عالمی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے غیرملکی اداروں کے بہترین ماہرین کو پروگرام میں خاص طورپر بلاکر اس وائرس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنی چاہئے کہ اس خطرناک وائرس سے بچاؤ کیلئے کیا کرنا چاہئے۔

گھروں میں کس طرح سے قرنطینہ میں ر ہ کر اپنے اہلخانہ کو محفوظ کیاجاسکتا ہے؟ روزمرہ کی معمولات میں کون سے عمل کو اپناناچاہئے جس سے وائرس متاثر نہ کرے؟ ہماراجو کلچرل میل جول کا ہے اسے کم کرکے کس طرح سے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے؟ مصافحہ کیونکر نہیں کرنا چاہئے؟ ہجوم کی وجہ سے اس کے کیا نقصانات ہونگے؟ بجائے ان حساس معاملات کو ترجیح دی دینے کے،غیر ضروری طورپر تفرقہ بازی اور نفرتوں کوبڑھاوادیا جارہاہے۔ اور یہ اصل مسائل کو نظرانداز کیاجائے کیونکہ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ ہمارا صحت کانظام کیسا ہے؟

ہمارے پاس ڈاکٹر،عملہ، اسپتال،آلات، ادویات سمیت دیگر صحت کے حوالے سے کیا سہولیات موجود ہیں چونکہ ہماری ستر سال سے زائد عرصہ میں حکمرانوں کی ترجیحات کا اندازہ صحت کے نظام سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ کس طرح سے ہمارے حکمران اپنے علاج کیلئے بیرون ملک فوری روانہ ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اس وقت سب سے زیادہ ضرورت عوام کو آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ اس وباء سے پاکستان کے غریب عوام بچ سکیں وگرنہ جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے اور یہی رویہ برقرار رہا تو یقینا خوفناک صورتحال پیدا ہوگی۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے میڈیا کا کردار انتہائی ذمہ دارانہ ہے کہ وہ عوام کو شعور دینے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرے ناکہ ایسی خبروں سے خبریں نکال کراشتعال پھیلایاجائے جس سے عوام وائرس سے قبل پریشانی میں دیگر بیماریوں کاشکار ہوجائیں چونکہ اعصاب پر جب خوف طاری ہوتا ہے تو یہ عام سی بات ہے کہ بیماریاں اپنے شکنجے میں کس لیتی ہیں اور معمولی زکام، بخار، کھانسی کے باعث وہ وہم میں مبتلاہوجاتے ہیں جس سے ایک فرد نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہوتا ہے جس کی ایک جھلک گزشتہ روز کراچی کے ایک نوجوان کی خودکشی سے لگایاجاسکتا ہے۔

کہ جوکورونا وائرس سے متاثر نہیں بھی تھا مگراپنے گھروالوں کی جان بچانے کیلئے خوف سے اپنی جان دیدی۔ کورونا کو شکست دینے کیلئے میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے وگرنہ قومی یکجہتی اور اعمال کے چکر میں مزید مسائل پیدا ہونگے جس کی تباہی کے متحمل ہمارے غریب عوام نہیں ہوسکتے جوپہلے سے ہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہورہے ہیں اس لئے زیادہ توجہ ان کی مشکلات پر دیں تاکہ ان کے گھروں میں بیماریوں کے وہم پیدا ہونے کی بجائے بھوک وافلاس کا مسئلہ حل ہوسکے۔