چین کے شہر اوہان سے جنم لینے والا کورونا وائرس نے نہ صرف چین بلکہ ایران، افغانستان، پاکستان، امریکہ، اٹلی، یورپی،افریقی،عرب ممالک سمیت دنیا بھر کے 200سے زائد ممالک میں اپنا زور دکھایا۔ سال2019کے آخری ماہ سے کورونا وائرس نے دنیا بھر کے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ عالمی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں 8لاکھ 76ہزار،3سو سے زائد تصدیق شدہ مریض موجود ہیں اور تقریباً 43ہزار5سو سے زائد افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور 1لاکھ84ہزار 9سو سے زائد افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔
سال 2019کے آخر میں پیدا ہونیوالے اس وائرس نے چین میں وبال مچادی تھی اور چین میں اب تک 3ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جس کے بعد کورونا وائرس ایران پر حملہ آور ہوا، اور ایران میں بھی 3ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔پھر کورونا وائرس نے اٹلی کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اٹلی میں تو اس قاتل وائرس نے اپنی تمام حدیں پار کردیں اور اب تک اٹلی میں 12ہزار4سو کے قریب لوگوں کی جان لے چکا ہے۔امریکہ میں چونکہ چین کیساتھ ہی کچھ کیسز رونما ہوئے لیکن امریکہ نے وائرس کو ہلکا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ کورونا کے مریض امریکہ میں موجود ہیں جن کی تعداد 1لاکھ 88ہزار 6سو سے زائد ہے اور 4ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔چین نے اوہان شہر میں وائرس پھیلنے کے فوراً بعد شہر کو لاک ڈاؤن کیا اور شہر کے اندر سے کسی بھی فرد کو نہ باہر جانے دیا اور نہ ہی باہر سے کسی بھی فرد کو اوہان شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
ریکارڈ10دنوں میں 1200بستروں پر مشتمل ہسپتال قائم کیا اور ملک کے تمام ماہر ڈاکٹروں کو شہر میں داخل کرکے وائرس کے خاتمے کیلئے اقدامات شروع کردئیے اور ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے دن رات ایک کرکے کورونا وائرس پر کسی حد تک قابو پالیا۔ چین کی عسکری قیادت نے اس بات کا پتہ بھی لگالیا تھا کہ یہ امریکہ کی بائیولوجیکل وار کا حصہ ہے۔چینی حکام کے مطابق چین چونکہ ایک بڑی معیشت بن کر سامنے آچکی تھی اس لئے امریکہ چین کو ایک سُپر پاور بنتے نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے اس نے مذکورہ وائرس بناکر چین کے سب سے ترقی یافتہ شہر اوہان میں داخل کیا لیکن وائرس نے اتنی تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا گویا یاجوج ماجوج پوری دنیا پر نازل ہوگئے ہوں۔
ساری عالمی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور وائرس سے نمٹنے کے لییمشترکہ لائحہ عمل پر غور شروع کیا اور اب تک ساری عالمی طاقتیں کورونا وائرس کا صرف ایک ہی حل نکال سکی ہیں اور وہ ہے ”لاک ڈاؤن“۔ یعنی جس ملک میں ایک بھی کیس ہو، اس ملک کو مکمل طور پر سیل کرکے تمام عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایات جاری کردی جاتی ہیں اور تقریباً 3ماہ سے یہی ڈرامہ چلا آرہا ہے۔ اب دنیا بھر میں تین درجے کے ممالک موجود ہیں۔ پہلے درجے کے ممالک اپنے عوام کو گھروں میں بند کرکے ان کو وہ تمام تر سہولیات فراہم کررہی ہیں جو انکی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہوں اور ان کی حکومتوں نے ہر صوبہ،ہر شہر کی ہر گلی اورکوچے میں سینیٹائزر اور وائرس سے بچاؤ کیلئے بھانپ دینے والی مشینیں نصب کردی ہیں تاکہ جو بھی شخص کسی بھی شاہراہ سے گزرے تو وہ محفوظ ہو۔
دوسرے درجے کے ممالک میں صرف مملکت کے چہیتے یا سرمایہ دار لوگوں کیلئے ہی حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں یعنی اگر آپ کسی وزیر، مشیر یا کسی بیوروکریٹ کیساتھ اچھی پہچان رکھتے ہیں یا آپ کے پاس کافی سرمایہ موجود ہے تو لاک ڈاؤن سے آپ متاثر نہیں ہوں گے اور تیسرے درجے کے ممالک وہ ہیں جن کے سربراہان بھی جاہل اور رعایا بھی جہالت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان اس تیسرے درجے کے ممالک میں آتا ہے جہاں ایک وفاقی مشیر کے کہنے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے حکم پر تہران سے پاکستان میں متاثرہ افراد کو داخل کیا گیا اور گویا ایک منصوبے کے تحت کورونا وائرس کو پورے پاکستان میں پھیلایا گیا۔
اب گزشتہ روز سے موصوف وفاقی وزیر نے اس بات سے انکار کردیا کہ میرے حکم پر نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے خود ہی متاثرہ افراد کو پاکستان میں داخل کیا،اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے جس کے بعد موصوف وفاقی وزیر زلفی بخاری اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ جاری ہوا۔”لاک ڈاؤن“ سے پوری دنیا متاثر ہوئی۔ سرمایہ دار طبقہ بے خطر زندگی گزارنے میں مصروف ہے جبکہ نچلے درجے کے لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ مزدور طبقہ جو روزانہ کی بنیاد پر کمائی کرتا ہے اور رات کو بچوں کا پیٹ پالتا ہے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدوروں کی روزی روٹی کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے گھروں میں فاقے پڑ رہے ہیں۔
کچھ مزدوروں کو اب بھی کوئٹہ کے مین شاہراہوں جناح روڈ، میزان چوک، قندھاری بازار، لیاقت بازار،ایئرپورٹ روڈ و دیگر شاہراہوں پر بے یار و مددگار بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے جو کسی بھی جانب سے آنیوالے مسیحاؤں کے منتظر ہوتے ہیں،کوئی آتے جاتے کسی ایک یا دو افراد کی کچھ مالی مدد کردیتا ہے۔ ”لاک ڈاؤن“ سے فائدہ اٹھائے ہوئے بلوچستان کے وزراء، عوامی نمائندوں، اراکین اسمبلی، نام نہاد میر،نواب،ملک،خان،مقامی این جی اوز، فلاحی و رفاعی تنظیموں،خیراتی اداروں نے فوٹو سیشن کا آغاز کردیا اور گِنے چُنے افراد میں راشن تقسیم کرکے ان کیساتھ فوٹو بنواکر اگلے روز اخبار اور سوشل میڈیا کی زینت بننے کا فائدہ حاصل کیا اور مذکورہ افراد دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بے یار و مدد گار لوگوں کی امداد سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔اب بعض سفید پوش لوگ ان کی امداد لینے سے بھی گھبرارہے ہیں کیونکہ وہ لوگ امداد تو دے دیتے ہیں لیکن غریب کیساتھ تصویر لیکر اس بیچارے کو پوری دنیا کے سامنے ذلیل کردیتے ہیں تاکہ وہ تادم مرگ اور آل و اولاد اس کے طعنے سنتے رہیں اور ذلیل ہوتے رہیں۔
گویا یہ ایک ترکیب ہے کسی کو نیچا دکھانے کی، اگر چہ کسی نے خیرات یا زکوٰۃ کے طور پر کسی غریب کی مدد کرنی بھی ہے تو اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہر غریب کے گھر کا پتہ کرکے ایک ماہ کا راشن یا جتنا بھی ہوسکے ان کی گھر کے دروازے پر رکھ کر ان کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ گھر سے باہر نکل کر کسی کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائیں۔یہ تو غریب کا حال تھا، اب ذرا سرمایہ دارانہ طبقوں کے درمیان جنگ پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اس سے فائدہ حاصل کیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق چین نے اسپین کو وائرس سے نمٹنے کیلئے ریکارڈ 3ہزار5سو48کروڑ روپے کی دوائیاں فروخت کی ہیں جہاں سے ایک کاروبار کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب اس کاروبار کو دیکھنے کے بعد روس نے بھی دعویٰ کیا کہ فلو کی ایک دوا سے کورونا کے مرض کا علاج ممکن ہے اور دنیا میں اس دوا کی مانگ بھی بڑھ گئی۔ روس نے گزشتہ روز امریکہ اور عالمی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ دنیا کی آبادی کو کم کرنے کا جو گھناؤنا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔
اس پر روس چھپ بیٹھنے والا نہیں جس کے اگلے ہی روز امریکہ نے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مرض کے علاج کیلئے دوا کی تیاری کا اعلان کیا اور گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے ذریعے امریکی صدر نے کورونا مرض کے خاتمے کی دوا پوری دنیا کو سپلائی کرنے کا اعلان کیا۔ عالمی برادری کی اس پر خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے،عالمی طاقتیں اس مرض کو پھیلنے سے روکنے کی ایک ناکام کوشش کررہی ہے جسے یہ لوگ ”لاک ڈاؤن“ کا نام دے رہی ہیں لیکن کوئی بھی اس وائرس کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش تک بھی نہیں کررہی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ معاشی جنگ ہے، بائیولوجیکل جنگ ہے یا سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان مقابلے کی جنگ اور یہ جنگ آخر کس طرح ختم ہو جائیگی۔