سائنسی علوم اور طبعی تحقیقات ہماری گمشدہ میراث ہیں۔ہم ہی نے دنیا کو ان سے روشناس کرایا تھا لیکن زہے قسمت اب اس جدور دور میں ہم اس میدان میں باقی دنیا سے کافی پیچھے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے طبعی ماہرین اپنے بساط کے مطابق سر گرم عمل ہیں صدیوں سے دکھی انسانیت کی خدمت اور مریضوں کا علاج معالجہ ڈاکٹرز کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے اور موجودہ حالات میں اس عالمی سطح کیوباء کیخلاف طبعی عملے کا برسر پیکار رہنا ایک عملی ثبوت ہے۔
کیونکہ جنگیں صرف میدانوں میں یا سرحدوں پر نہیں لڑی جاتیں بلکہ ہر اس میدان میں لڑی جاتی ہیں جس میں انسان اپنی جان کی بازی لگا کر انسانیت کی حفاظت کرتا یے حالات حاضرہ پر نگاہ دوڑاءِیں تو کرونا کی وباء سے پورے ملک میں لاک ڈاون کی وجہ سے تمام لوگ اپنے گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں مگر کرونا کے ہنگامی میدان میں اگر کوئی مجاہد نظر آرہے ہیں تو پہلی لائن میں ڈاکٹرز اور ان کا پورا میڈیکل سٹاف ہے۔
دنیا میں کوئی بھی پیشہ پاک صاف نہیں ہے ہر طبقے میں ظالم بے حس اور رشوت خور موجود ہوتے ہیں چاہے وہ پولیس ہووکالت ہو صحافت ہو یا میڈیکل ہو مگر ہر پیشہ میں خدا ترس مخلص ہمدرد اور درد دل رکھنے والے انسان بھی موجود ہوتے ہیں جو اپنی ایمانداری اور اخلاص کی وجہ سے نہ صرف اپنا نام روشن کرتے ہیں بلکہ پورا ڈپارٹمنٹ عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔اسی طرح ڈاکٹروں کے بارے میں بھی مخلتف نظریات پائے جاتے ہیں۔کوئی انھیں ظالم کہتا ہے تو کوئی لٹیرا کوئی بزنس میں کہتا ہے تو کوئی قصائی،غرض جتنی منہ اتنی باتیں،مگر موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت ہم ان تمام نظریات اور خیالات کو پس پشت ڈال کر ڈاکٹروں کی اس تصویر کو دیکھیں گے جو اس وقت نظر آرہا ہے۔اسی نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے 27 مارچ کو شام چھے بجے پورے ملک میں لوگوں نے اپنے گھروں کے چھتوں چوراہوں پر سفید جھنڈے لہرا کر قوم کے مسیحاوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا پھولوں کے دستے انھیں پیش کیے اور پولیس کے دستوں نے جا کر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبعی عملے کو سلامی اور گارڈ آف آنر پیش کرکے ان کو خراج تحسین کے ساتھ ساتھ انکے حوصلے مزید چلتن کے پہاڑ کی چوٹی جتنا بلندو بالا کر دیئے۔
اگرچہ یہ ان کی خدمات کا صلہ تو نہیں مگر خراج تحسین کے طور پر انکی حوصلہ افزائی کی گئی ہے باقی اصل صلہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات انھیں دیگی۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ” جب تک کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی حاجت ہوری کرنے میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بگڑی بنانے میں لگا رہتا ہیاور جو کوئی کسی مسلمان سے کوئی مصیبت دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت دور کرے گا”(طبرانی)
یقینا یہ وقت مصیبت کا وقت یے جب ہر انسان ایک دوسرے سے دور بھاگ رہا ہے ایسا خطرناک وقت ہے کہ حقیقی رشتے دار بھی اپنے مریض سے دور بھاگ رہے ہیں مگر اس وقت ہمارے قریب اور ہماری تیمار داری اور علاج معالجہ صرف اور صرف ڈاکٹرز اور انکا طبعی عملہ کر رہاہے جو کہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دن رات انسانیت کی خدمت اور انسانیت کی بقا کے لیے اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔ انسانی جان کی اہمیت کا اندازہ قرآن پاک کے اس آیت کریمہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ترجمہ” اور جو شخص کسی ایک (انسان) کی جان بچا لے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا “(المائدہ)
انسان کی جان بہت سے طریقوں سے بچائی جا سکتی ہے جیسے کوئی شخص آگ میں جل ریا ہو، پانی میں ڈوب رہا ہو،بھوک سے مر رہا ہو یا کسی بیماری کی وجہ سے مر رہا ہوں اسکی جان بچانا گویا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری انسانیت کے جان بچانے کے برابر ہے۔اس عالمی اور خطرناک وباء کے دوران اپنے فرائض کو سر انجام دیتے ہوئے ڈاکٹرز کا اپنے گھروں میں جانا اور اپنے اہل خانہ سے ملنا یقینا خطرے سے کم نہیں ہے مگر اس کے باوجود نہ صرف اپنی جان کی قربانی دے رہے ہیں بلکہ اپنے پورے اہل خانہ کو بھی اس سے دوچار کر رہے ہیں۔بہت سے ڈاکٹرز اس مرض کا علاج کرتے کرتے نہ صرف اس میں مبتلہ ہو گئے ہیں بلکہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جیسے پاکستان میں ڈاکٹر اسامہ اور ایک لیڈی نرس کرونا سے جنگ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ہیں (انھیں خصوصی سلام) مسیحاکے درجے ہر انسان تب ہی پہنچتا ہے جب اپنے اندر مسیحا جیسی صفات پیدا کر لے وہ شخص کبھی مسیحا نہیں بن سکتا جو انسان سے نفرت کرتا ہو انسان پر ظلم کرے انسان کو تعصب کی نظر سے دیکھے۔طب جیسی معزز پیشے کو تجارت سمجھے اور اپنے آپکو بڑا سمجھ کر تکبر کرے مگر صحیح معنوں میں مسیحا وہ ہے جو بلا تعصب رنگ و نسل،مذہب, زبان اور امیر غریب کی تفریق کیے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کرے جو لوگوں میں جینے کی امید پیدا کرے جس کے دل میں انسانیت کا درد ہو ہمدردی ہو اخلاص و احساس ہو۔اس لیے تو امیر مینائی نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ “
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر۔
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
آخر میں اپنے ان ہیروز اور مسیحاوں کیلیے دعائیہ کلمات کہ “جو بھی میڈیکل اسٹاف اس مشکل کی گھڑی میں انسانیت کی خدمت اور بقا کے لیے جنگ لڑرہے ہیں اللہ تعالیٰ انکی اور انکے اہل وعیال کی خاص خیال فرمائے اور انھیں اس موزی وباء سے محفوظ رکھے۔آمین۔