|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2020

کورونا وائرس دسمبر 2019میں چائنہ کے مرکزی شہر ووہان میں تباہی پھیلانے کے بعد اب دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے۔ امیدوں سے زیادہ اب اس مہلک وائرس نے یورپ کے معرو ف شہر وں اٹلی،فرانس اور سپین کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ سی این این (CNN) کے اعداد وشمار کے مطابق موجودہ صورتحال میں برطانیہ اور دنیا کا سپر پاور امریکہ میں بھی اس عالمی وباء کی وجہ سے حالات نہایت مخدوش ہیں جہاں بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کئے جارہے ہیں۔

پاکستان کے اعداد شمار توقع سے کم رہے ہیں اور حکومتی ڈیش بورڈ نے اب تک ملک بھر میں 2935 کیسس رپورٹ کئے ہیں جن میں سب سے زیادہ کیسس 1196پنجاب میں سامنے آئے ہیں جبکہ ابھی تک کورونا وائرس ملک بھر میں 45 جانیں نگل چکا ہے۔ پاکستان میں ریپڈ ٹیسٹنگ کے فقدان کی وجہ سے انتظامیہ اور ماہرین کے نظر میں ملک میں ہزراروں مشتبہ مریض موجود ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس خطرے کی شدت سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک کے سربراہان کو سخت چیلنج درپیش ہے اور تقریباً تمام ممالک نے چائنہ کے ووہان شہر میں اپنائے لاک ڈاؤ ن ماڈل کی پیروی کر تے نظر آرہے ہیں۔ دنیا بھر میں شیڈول مشہور کھیلوں کے مقابلے بشمول اولمپکس اور ومبلڈن2020 ُٰ سمیت ہزراروں تقریبات ملتوی اور منسوخ کر دئیے گئے، غرض یہ کہ کوڈ -نائنٹین (COVID-19)نے دنیا کے حالات و واقعات تیزی سے تبدیل کر کے عیش وعشرت والی زندگی کو مفلوج بنا دیا ہے۔

ُٓپاکستان نے بھی باقی ممالک کی طرح ؒٓ سکول کالج اور یونیورسٹیاں بند کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی اجتماعات کو لگام دینے کے لیے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا لیکن وائرس سے متاثر ملکوں سے مختلف ہمارے ہاں ملک کے مقامی حالات کو دیکھتے ہوئے جزوی لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔ چائنہ نے کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لئے لاک ڈاؤن کیا اور چائنہ کے شہریوں نے حکومتی احکامات پر لبیک کہتے ہوئے لاک ڈاؤن پرمکمل عمل کر کے اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے خود کو گھروں تک محدود کیا تھا،جواس وبا ء کو ملک کے باقی شہروں میں پھیلنے سے روکنے میں کافی مدد گار ثابت ہوا لیکن پاکستان میں تمام کوششوں کے باوجود لاک ڈاؤن یکسر مختلف ہے۔

ملک کے مختلف حصوں میں صوبائی حکومتیں اور انتظامیہ کو شہریوں کے ہجوم کو اکھٹا ہونے سے روکنے میں مشکلات پیش آرہی ہے اس کی بنیادی وجہ شہریوں میں اس وبا ء سے متعلق معلومات کا فقدان ہے۔دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کے غریبوں کے لئے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت نے بھی شہریوں کو گھر میں نہ رہنے کا حوصلہ دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی سائنسی حکمت عملی کو جہاں چائنہ نے اپنایا اور وباء کو مزید پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی،وہاں عالمی ادارہ برائے صحت (WHO)کے صدر سمیت ماہرین نے تمام ممالک کو لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے کا کہا ہے مگر پاکستان کے اس کورونا وائرس کے خطرے کو کافی دیر سے محسوس کرنے کے باوجود بھی اس سائنسی حکمت عملی کو مکمل نہیں اپنایا ہے جو اللہ نہ کرے اس خطرناک اور جان لیوا وائرس کے پھیلنے اور بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

دوسری طرف شہری بھی وزیراعظم پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے گھر بیٹھنے، ہجوم نہ بنانے سمیت کئی احکامات اور وائرس سے بچنے کی تنبیہات کو ابھی تک سیریس نہیں لے رہے جو حکومت کو مکمل لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ اگر ہم بلوچستان حکومت کی کرونا وائرس سے نمٹنے کی کارکردگی پرروشنی ڈالیں تو یہ کہانی پہلے صوبائی اسمبلی بلوچستان کے اجلاسوں میں شروع ہوتی ہے جہاں صوبے میں پہلے کیس کے رپورٹ ہونے سے پہلے اپوزیشن کے ایک رکن نے وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کو کرونا کے خطرے سے آگاہ کیا تھا اور حکومت سے کرونا سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانے کی اپیل کی گئی تھی لیکن اس آگاہی کو اسی اجلاس میں ایک صوبائی وزیر نے ہلکا لے کر ہوا میں اڑا دیا اور یہ کہہ کر کہ ” میں کہتا ہوں کہ کوئی ایشو نہیں ہے۔

یہ مزید یہ کہ ہمارے پاس اللہ ہے اور ہم اسپغول پی لیتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوگا ” اس سنجیدہ بحث کو مذاق میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی جیسے عوام ویسے حاکم، بلوچستان کے اکثر شہریوں نے بھی اپنے نمائندوں کو جگتیں مارنے میں پیچھے چھوڑتے ہوئے مختلف حکمتیں رٹ کر کرونا سے مذاق بنا دیا ہے اور ابھی تک کرونا سے لڑنے کے لئے سنجیدہ نہیں،یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت کوئٹہ سمیت صوبے میں شہریوں کو گھروں تک محدود کرنے میں ناکام ہے پچھلے دنوں صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے شہریوں کو خبردار کیا کہ اگر شہری گھروں میں نہیں رہینگے تو حکومت مجبوراً مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

شرح خواندگی کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے لے کروزیراعلیٰ جام کمال اور لیاقت شاہوانی صاحب کی تلقین اکثر شہریوں کے لیے بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف رہاہے اور کیوں نہ ہو بلوچستان کی شرح خواندگی باقی تینوں صوبوں کی نسبت سب سے کم ہے جو موجودہ حالات کو سمجھنے کے لئے بنیادی چیز ہے۔شہریوں میں ناخواندگی ہی کی وجہ سے اس عالمی وباء کو سنجیدہ لینے سے روک رہی ہے دوسری طرف بلوچستان کے سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے تعلیمی نظام میں بہتری کو ترجیح نہیں دی اور عملی اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور باہر رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔

مرکزی اور بلوچستان حکومت کو قدرت کے دیئے گئے ڈیل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جامع اور ماہرین کے مرتب کرتا پالیسی پر عمل کرکے اس وبا ء سے نبرد آزما ہونا چائیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ لیکن کرونا سے لڑنا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بنتی، اس خطرناک عالمی وباء سے لڑنے کے لیئے اپوزیشن،عوام، سول سوسائٹی اور مقامی این جی اوز(NGOs)کو حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہوکر اقدامات کرنے ہونگے۔