تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ملک میں کرپشن،اقربا پروری اور بد عنوانی،نظام کا حصہ بن گئی۔ اور جو بھی آیا اس نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بار ہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک سے بد عنوان عناصر کا خاتمہ کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان کے دور میں پاکستان میں احتساب کا قومی ادارہ ”نیب“ بھی سر گرم ہے اور اس نے حزبِ مخالف کے کئی اہم رہنماؤں کے خلاف بد عنوانی اور کرپشن کے مقدمات قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں بر سرِ اقتدار تحریکِ انصاف کی حکومت مسلسل ملک سے کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار اور اس سلسلے میں دعوے بھی کرتی رہی ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے اقتدار میں آنے کی وجہ ہی کرپشن کے خلاف بلند و بانگ نعرے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
قومی احتساب بیورو پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے سر گرم ِ عمل ہے۔ جنوری2020ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے رپورٹ دی جس میں نیب کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیب نے 153ارب ریکور کیے جو کہ قابل تعریف اقدام ہے۔پاکستان میں جنوری اور فروری 2020ء میں گندم اور چینی کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو ہو گئی تھی۔ جس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا اور تفتیش مکمل کر کے رپورٹ جمع کرانے کے احکامات صادر کیے۔ ساتھ ہی وزیرِ اعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا اور اب اس تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ شائع کر دی ہے۔ جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق اس بحران کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک ِ انصاف کے اہم رہنماؤں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین، وفاقی وزیر خسرو بختیارکے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر واجد ضیا ء کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کمیشن میں انٹیلی جینس بیورو، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے نمائندے بھی شامل تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ہونے کی وجہ سے انھوں نے کم وقت میں زیادہ سبسڈی حاصل کی اور بہت ہی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع بھی یقینی بنایا۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں تین اہم ذمہ داران حکومتی ارکان ہیں۔
جہانگیر ترین عمران خان کے قریبی اور تحریکِ انصاف کے بانیان میں سے ہیں اور 2018ء میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔خسرو بختیار وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور ا ن کے پاس وزارت ِ تحفظِ خوراک اور تحقیق کی وزارت ہے۔ وہ عمران خان کے ساتھ اکثر اہم میڈیا بریفنگز اور کانفرنسز میں نظر آتے ہیں۔ ان کے بھائی مخدوم ہاشم بھی پنجاب کابینہ کا حصہ ہیں اورصوبائی وزیرِ خزانہ ہیں۔ تیسری اہم شخصیت حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق کے رہنماء مونس الٰہی ہیں۔ مونس الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے بیٹے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسر و بختیار ہیں اور تیسرے نمبر پر فائدہ اٹھانے والے مونس الٰہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بحران پیدا کرنے والے طاقتور شخصیات کے خلاف کاروائی ہو گی؟ جو کہ حکومتی ٹیم کا حصہ ہیں کیونکہ تحریک ِ انصاف کے حکومت میں آنے کی وجہ محض وہ نعر ے ہیں جو انھوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے کرپشن کے خلاف لگائے اور تحریک انصاف کے چیئر مین وزیرِ اعظم عمران خان نے ہمیشہ کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
تحریکِ انصاف کے موجودہ دورِ حکومت میں کئی اپوزیشن رہنما ء کرپشن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے موجودہ سربراہ میاں شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، محترمہ مریم نواز، پیپلز پارٹی کے رہنماء اور سابق صدر آصف علی زرداری، محترمہ فریال تالپور شامل ہیں۔
جہاں تک رپورٹ کی بات ہے تو ذرائع کے مطابق کئی حکومتی شخصیات نے اس رپورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی لیکن وزیرِ اعظم عمران خان نے کسی قسم کا دباؤ قبول کیے بغیر رپورٹ منظر ِ عام پر لانے کا حکم دیا جو کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا قابل تعریف اقدام ہے۔ جس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان بلا تفریق تمام ذمہ داران کے خلاف بھر پور کاروائی کریں گے جس سے اس ملک میں ستر سالوں سے جاری کرپشن، اقربا پروری اور نا انصافی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔