پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کا 70فیصدکثیر زمینی رقبہ زراعت کے لئے استعمال ہوتاہے پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام بھی موجود ہے پاکستان میں کاشت ہونے والی چند بڑی فصلوں میں شوگر کین یعنی گنا شامل ہے۔ گنے کی فصل 10سے12یا پھر 15سے 18مہینوں میں تیار ہو جاتی ہے ماضی قریب میں زمیندار اپنی گھریلو ضروریات یا محدود پیمانے پر فروخت کیلئے گنا کاشت کرتے تھے اور گنے سے قدیم دیسی طریقے یعنی بیلنے کے ذریعے اس کا رس نکال کر ایک مخصوص طریقے سے کڑاہوں میں پکانے کے بعد گڑ و شکر بناتے تھے،اس قدیم دیسی طریقے سے گڑ یا شکر نکال کر زمیندار اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فروخت کرکے اچھا زر مبادلہ بھی حاصل کرتے تھے۔رفتہ رفتہ کاشتکاری کے لئے نت نئے جدیدزرعی آلات کی آمد اور طریقوں میں جدت آتی گئی اور دیسی گنے کے ساتھ ہائی برڈ گنا آنے کے بعد فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور پرانے آلات ودیسی طریقوں سے گڑ اور شکر تیار کرنے کا دور بھی ختم ہوتاگیا اورشوگر کی تیاری بڑی بڑی جدید شوگر ملوں کے ذریعے ہونے لگی اور باقاعدہ ایک بڑی صنعت کا درجہ اختیار کر گئی۔
پاکستان میں شوگر کی اس صنعت پر چند بڑے سیاسی گھرانوں کا کنٹرول ہوگیا اوریہ صنعت کارگھرانے ملک میں دیگر مافیا کی طرح شوگر مافیا کاروپ اختیار کر گئے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی کی پیداوار پر 6 شوگرملزگروپوں کا مکمل طورپر کنٹرول ہے جو مجموعی پیداوار کا 51فیصد حصہ پیدا کرتے ہیں اور اس گروپ میں شامل افراد کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے،اس مافیا یا گروپ میں سب سے بڑا گروپ جہانگیر ترین کا ہے جس کی 6شوگر ملز ہیں جو ملکی پیداوار کا 19اعشاریہ 91فیصد پیدا کرتی ہیں۔
وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کے رشتے دار مخدوم عمر شہر یارکے آر.وائی. کے گروپ کی6شوگر ملز ہیں جو پیداوارکا 12اعشاریہ24،المعز گروپ کی 5ملز6اعشاریہ 80فیصد،تاندلیانووالہ گروپ کی 3ملز4اعشاریہ90فیصد،سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اومنی گروپ کی 10ملز ہیں پیداواراعشاریہ 66فیصد،سابق حکمران خاندان شریف فیملی کی 9ملز ہیں جو4اعشاریہ 54فیصد چینی پیدا کرتی ہیں۔مذکورہ 6گروپوں کی38شوگر ملز کی چینی کی مجموعی پیداوار51اعشاریہ 10فیصد اورباقی 51شوگر ملز 49اعشاریہ90فیصد چینی پیدا کرتی ہیں ملک میں چینی کی پیداوار اورمارکیٹ پر یہ 6گروپوں پرمشتمل مافیا باہمی ہاتھ ملا کر اثر انداز ہوتا ہے، گنے کی خریداری چینی کی پیداواراورفروخت سمیت تمام معاملات پر اس گروپ نما مافیا کا مکمل کنٹرول ہے۔
پاکستانی تاریخ میں مختلف اشیاء خوردنوش خصوصی طور پر چینی،گندم،آٹے وغیرہ کے مصنوعی بحران اکثر اوقات میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جس کا بڑا سبب چھوٹے بڑے ذخیرہ اندوز مافیا رہے ہیں،ایسے مصنوعی بحرانوں میں ذخیرہ اندوز مافیازکروڑوں اربوں روپے کماتی ہیں گزشتہ سال 2018اور2019کے دوران ملک میں چینی اور آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا اور چند ماہ کے دوران چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ 16روپے اضافہ ہوگیاتھاجس سے ذخیرہ اندوزوں اور شوگر مافیا نے کروڑوں، اربوں روپے کمائے تھے۔
اس بحران کے دوران فائدہ اٹھانے والوں میں حکمرا ں جماعت کے اہم رہنماء اور موجودہ وزیر اعظم کے رائٹ ہینڈ جہانگیر ترین کانام سر فہرست تھا۔ چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم پاکستا ن عمران خان نے مختلف ایجنسیوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے گزشتہ روز اپنی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی ہے اور حکومت نے یہ ابتدائی رپورٹ عوام کے سامنے بھی پیش کر دی ہے جس کے مطابق گزشتہ سال ا س بحران میں سب سے زیادہ فائد ہ حکمراں جماعت کے وفاقی وزیر خسرو بختیار کے عزیز مخدوم عمر شہریار نے4ارب روپے،وزیراعظم کے دست راس جہانگیر ترین نے3 ارب روپے،ہنز ہ گروپ نے 2ارب80کرورڑ، فاطمہ گروپ نے 2ارب 30کروڑ، شریف گروپ نے1ارب 40 کروڑ،آصف زرداری کے اومنی گروپ نے 90کروڑ روپے،ن لیگ کے سابق رکن صوبائی اسمبلی غلام دستگیر لک. ال معیز گروپ کے شمیم احمد خاں،حکمراں جماعت کے مونس الٰہی سمیت دیگر نے کروڑوں روپے کمائے۔ چینی بحران میں جہاں حکمران جماعت کے رہنماؤں نے اربوں روپے کمائے ہیں وہیں آٹابحران کی رپورٹ میں بھی صوبائی خوراک پنجاب چوہدری سمیع الحق،کے. پی. کے کے وزیر خوراک قلندر لودھی اور متعلقہ محکمے کے افسران کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کی جانب سے چینی اور آٹے بحران کی مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹس پبلک کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کیوں کہ وزیر اعظم پاکستان شفافیت،احتساب کو جمہوریت اور گڈ گورننس کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں اس لئے رپورٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور وزیر پاکستان عمران خان بھی چینی آٹا بحران کے حوالے سے اپنے بیانات میں کئی بار فرما چکے ہیں کہ اس بحران میں جہانگیر ترین اور خسروربختیار شامل نہیں اور ملوث سیاست دانوں کو نہیں چھوڑوں گااوربحران پیداکرنے اور قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کی نشاندہی اور سزا دلوانے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔وزیر اعظم نے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کے بعد ذمہ داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پرانکوائری کمیشن بھی قائم کر دیا ہے، اس کمیشن کی 9ٹیموں نے بحران سے فائدہ اٹھانے والی شوگر ملوں کا فرانزک آڈٹ شروع کر دیا ہے ان میں جہانگر ترین کی شوگر مل بھی شامل ہے یہ کمیشن40روز میں اپنی رپورٹس مرتب کر کے حکومت کو پیش کرے گا۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے گزشتہ سال پیدا ہونے والے چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقاتی رپورٹس پبلک کرنا انتہائی احسن اور حوصلہ افزاء اقدام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اب جبکہ انکی جماعت کے اہم رہنماء جہانگیر ترین،خسرو بختیار سمیت دیگر کو چینی اور آٹے بحران کے دوران اربوں روپے کا فائدہ حاصل کرنے میں ملوث قرار دیا گیا ہے وہ ان رہنماؤں سے وزارتوں اور عہدوں سے استعفیٰ لیں گے اور تشکیل دئیے گئے کمیشن کی رپورٹ پر ان کے خلاف بھرپورکاروائی کریں گے۔ سب سے بڑھ کر وہ اپنے بیانات میں ملک میں موجود مختلف مافیاز کا ذکر اوراقتدار میں آنے کے بعد انکے خاتمے کے دعوے کرتے رہے ہیں تو وہ اس وقت وزیر اعظم ہیں اور تمام اختیارات اور طاقت انکے پاس ہیں کیا وہ6گروپس پر مشتمل شوگر مافیا کے خاتمے اور سزا کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات کر پائیں گے یا صرف ایک تحقیقاتی رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہی اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھی جائے گی اور ملک میں مافیاز اپنے گھناؤنے کھیل اور کالے دھندے ماضی کی طرح جاری رکھیں گی وزیر اعظم کے اقدامات یہ سب جلد واضح کر دیں گے۔